Consonant Digraph Word Lists

Start with "CH"

Chain, Chair, Chalk, Chance, Chap, Church, Chapter, Charge, Charm, Chart, Chase, Cheat, Check,  Checkers, Cheek, Cheer,  Cheese, Cherry,  Chess, Chest,  Chew, Chick, Child, Chili, Chime, Chimp, Chin, China, Chip.





End With "CH"

Much, Such, Each, French, Reach, March, Touch, Speech, Rich, Branch, Teach, Lunch, Switch, Beach, Coach, Inch, Bench, Punch, Bunch, 





Start with "Kn"

Knight, knot, know, knife , knit , knock , knave , knead , knee , kneel , know , knack , knob , knoll , knuckle 



Start with "Ph"

Phone, Photo, Phonics, Phrase, Physician, Pharmacy, Physical, Phantom, Phoneme, Paragraph, nephew, Trophy, Dolphin, Typhoon, Microphone,















#Consonant Digraph Word Lists

5th & 8th Scholarship IDEAL Practice Papers

 نیچے دی گئی لنک پر کلک کر کے آسانی PDF پیپرس آپ آسانی سے ڈانلوڈ کر سکتے ہیں۔

Class 5th Urdu - Maths

Class 5th Urdu- Maths(English)

Class 5th English- IT


https://teachingadds.blogspot.com


Class 8th Urdu-Maths

Class 8th Urdu - Maths(English)

Class 8th English - IT

AreeBTLM


Dr.M.Visvesvaraya

 ڈاکٹر وسویسوریا کے یوم پیدائش پر انجینئرس ڈے منایا جاتا ہے۔ 

ایم۔ و سویسوریا ( M.Visvesvaraya) ایک عظیم سفارت کار، سیاستداں اور غیر منقسم ہندوستان کے اولین سیول انجینئر تھے۔ وہ میسور سے تعلق رکھنے والے 19۔ویں دیوان تھے۔ انہیں 1955ء میں ملک کا سب سے بڑا شہری اعزاز بھارت رتن سے نوازا گیا تھا۔ ان کی یوم ولادت پر ہر سال ہندوستان ،سری لنکا اور تنزانیہ میں انجینئرس ڈے منایا جاتا ہے۔ وہ جنوبی ہند کے ریاستوں کی سب سے مشہور شخصیت تھی۔

 وسویسوریا کی پیدائش 15 ستمبر 1860ء کو میسور (کرناٹک) کے کولار ضلع کے چکبالاپور تعلقہ میں ایک تیلگو بر ہمن خاندان میں ہوئی تھی۔ ان کے والد کا نام سری نواسا شاستری اور والدہ کا نام وینکا چما تھا۔ والد سنسکرت کے عالم تھے۔ وسویسوریا نے اپنی ابتدائی تعلیم آبائی شہر میں حاصل کی۔ مزید تعلیم کیلئے انہوں نے سنٹرل کالج آف بنگلور میں داخلہ لیا۔ لیکن یہاں ان کے پاس پیسے کی کمی تھی۔ لہذا انہوں نے ٹیوشن پڑھانا شروع کر دیا1880ء میں وسویسوریا نے بی اے کے امتحان میں ٹاپ کیا۔ اس کے بعد حکومت میسور کی مدد سے پونا کے سائنس کالج سے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ 1883ء میں ، انہو ں نے ایل سی ای اور ایف سی ای (موجودہ بی ای ڈگری) کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔ اس کامیابی کی وجہ سے حکومت مہاراشٹر نے انہیں پبلک ورک ڈیپارٹمنٹ ، ممبئی میں اسسٹنٹ انجینئر کے عہدے پر مقرر کیا۔

        1906 میں حکومت ہند نے انہیں پانی کی فراہمی اور نکاسی کے نظام کا مطالعہ کرنے کے لیے عدن بھیجا ۔ عدن میں ان کے تیار کردہ منصوبے کو کامیابی کے ساتھ نافذ کیا گیا۔ 1912 میں میسور کے مہاراجہ نے وسویسوریا کو میسور کا دیوان یعنی وزیر اعلیٰ مقرر کیا تھا جہاں انہوں نے 1912 تا 1919 اپنی خدمات بخوبی انجام دیں۔ وہ صنعت کو ملک کی جان سمجھتے تھے، اسی لئے انہوں نے جاپان اور اٹلی کے ماہرین کی مدد سے پہلے سے موجود صنعتوں جیسے ریشم ، صندل، دھات، اسٹیل وغیرہ کو مزید ترقی دی۔ پیسوں کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے انہوں نے بینک آف میسور کھولا۔ یہ رقم صنعتوں کی ترقی کیلئے استعمال کی گئی۔

میسور میں آٹو موبائل اور ہوائی جہاز کا کارخانہ شروع کرنے کے خواب کی تعبیر کرتے ہوئے وسویسوریا نے 1935ء میں اس سمت میں کام شروع کیا۔ بنگلور میں ہندوستان ایروناٹکس اور ممبئی میں پریمیئر آٹو موبائل فیکٹری ان کی کوششوں ہی کا نتیجہ ہے۔ 1947ء میں وہ آل انڈیا مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کے صدر بنے۔ انہیں انسٹی ٹیوٹ آف سیول انجینئرس لندن کی اعزازی رکنیت عطا کی گئی۔ انہیں ہندوستان کی 8ر یونیورسٹیوں نے ڈی ایس سی، ایل ایل ڈی اور ڈی لٹ کی اعزازی ڈگریاں دی تھیں۔ وسویسوریانے بنگلور میں انجینئر نگ کالج کی بنیاد ڈالی۔ ان کی سائنسی خدمات کے صلے میں ملک کے کئی تعلیمی اداروں کے نام ان سے منسوب کئے گئے۔ حکومت ہند نے ان کے اعزاز میں ڈاک ٹکٹ جاری کیا تھا۔ وسویسور یا نے طویل عمر پائی۔ ان کا انتقال 14ا پریل 1962ء کو بنگلور میں ہوا تھا۔ (ماخوذ: وکی پیڈیا اور ٹائمز آف انڈیا ڈاٹ کام)

#Dr.M.Visvesvaraya #Personality #AreeBTLM #naushadali19881

Happy Teachers Day

 یومِ اساتذہ:

 جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک

ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں

اساتذہ کسی بھی قوم و ملت کا وہ عظیم سرمایہ ہیں جو ہر مشکل, ہر آفت, اور کٹھن سے کٹھن گھڑی میں نسل نو کو نکھارنے اور انہیں صیقل کرنے میں اپنا تن من دھن سب کچھ لٹا دیتے ہیں, ملک و ملت کا روشن مستقبل انہیں کے ہاتھوں پروان چڑھتا ہے اور ترقی کی منزلیں طے کرتا ہے ۔ تاریخ انسانی کے مختلف ادوار میں بہت سے اساتذہ فلاسفہ اور مصلحین   معاشرہ نے جنم لیا جنہوں نے آگے چل کر متعلمین اور علم کے تشنگان کی کھیپ کی کھیپ تیار کیں،انہیں ماہر فن اساتذہ میں استاد سروپلی رادھا کرشنن ہیں جن کی یوم پیدائش پر ہندوستان میں یوم اساتذہ منایا جاتا ہے۔ 

عالمی سطح پر یوم اساتذہ کا انعقاد 5 اکتوبر کو ہوتا ہے۔

ایک اچھا استاد نہ صرف اپنے طالب علموں کو علم کے نور سے منور کرتا ہے بلکہ ان کی تربیت بھی کرتا ہے ۔ انھیں زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کا راستہ بھی دکھاتا ہے۔ میں اُن تمام اساتذہ کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جو صرف پیشہ سمجھ کر نہیں بلکہ نئی نسل کی تعمیر و ترقی کا مقصد ذہن میں رکھ کر اس شعبہ کو اپناتے ہیں۔ 

جبکہ قومی اور ملکی سطح پر اس کا انعقاد 5 ستمبر کو ہوتا ہے یقیناً ہمارے معاشرے کے لئے یہ فخر و افتخار کی بات ہے کہ اپنے محسنوں اور بزرگوں کے تئیں عزت و احترام کے جذبات ابھی بھی زندہ ہیں

سروپلی رادھا کرشنن 

ہندوستان میں یوم اساتذہ 5 ستمبر کو سروپلی رادھا کرشنن کی یوم پیدائش کے موقع پر منایا جاتا ہے، سروپلی رادھا کرشنن (پیدائش 5 ستمبر 1888ء-وفات 17 اپریل 1975ء) ایک کامیاب ہندوستانی سیاست دان، ماہر و باکمال فلسفی اور آزاد ہندوستان کے دوسرے نائب صدر (1952–1965) اور ہندوستان کے دوسرے صدر جمہوریہ بھی تھے۔  (1962–1967)

یوم اساتذہ منانے کا اہم اور بنیادی مقصد سماج میں اساتذہ اور محسنین کے عظیم الشان کردار کو اجاگرکرنا ہے۔

ہر ذی شعور شخص کے دماغ میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ ان کی ہی یوم پیدائش پر  ٹیچر ڈے کیوں منایا جاتا  ہے؟

اس کی ضرورت اور اہم بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ ہندوستان کے نائب صدر اور ہندوستان کے دوسرے صدر جمہوریہ ہونے کے باوجود بھی اپنے آپ کو ایک استاد کہلوانا ہی  پسند کرتے تھے۔اس کی دوسری بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ خود مفکر،مدبر،مجتہد،فلسفی اور ایک مایہ ناز  استاذ تھے۔انھوں نے اپنی عمر کے چالیس سال تعلیم و تعلم کے میدان میں صرف کردیے تھے۔اس درمیان انھیں یہ محسوس ہوا تھا کہ اساتذہ طرح طرح کے مسائل کے درمیان محصور ہونے کے باوجود بھی صبرواستقلال کے اپنی محنت  سے طالب علموں کی شخصیات کو نکھارنے اور ان کے اندر ہنر پیدا کرنے میں ہمہ تن لگے رہتے ہیں۔یہی وجہ تھی کہ صدر جمہوریہ کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد جب ان کے شاگردوں نے  ان کی یوم پیدائش منانے کے لیے ان سے اجازت طلب کی تو انھوں نے ان سے اس کی جگہ یوم اساتذہ مناکر استاذوں کی عزت و احترام  کے لیےکہا۔ ان کا منشا یہی تھا کہ معاشرے کے اندراساتذہ کا مقام ظاہر ہو اور ان کی اہمیت کا اندازہ لوگوں کے دلوں میں ہو۔

ان کے اقوال میں یہ بات ذکر کی جاتی ہے :-

کہ ایک بہترین استاذ وہ ہے جو علم حاصل کرے اور دوسروں کو صیقل کرے،بلاشبہ استاد کی مثال ایک شمع کی طرح ہے جو خود تو پگھل جاتی ہے لیکن دوسروں کو روشنی دیتی ہے۔ 

یوم اساتذہ مناتے ہوئے ہمیں یہ ضرور خیال کرنا ہے کہ کیا ہماری تعلیم اسی روش پر قائم ہے جس پر ہمارے اسلاف چھوڑ کر گئے تھے کیا ہمارے اساتذہ ویسے ہی جذبات اپنے طالب علموں کے تئیں رکھتے ہیں جیسے کے رادھا کرشنن کے تھے افسوس ہے کہ آج کی تعلیم اخلاق سے عاری ہے وہ صرف اور ہنر سکھاتی ہے اخلاق نہیں جس کی وجہ سے لوگ مادیت کے پجاری اور مے نوشی کے پرستار بن جاتے ہیں,  جو تعلیم انسانیت کو چھوڑ کر مادیت کا پجاری بنا دے تو کیا اس تعلیم کی کوئی اہمیت معاشرہ میں رہ جاتی ہے. کیا یہی یوم اساتذہ کا مقصد ہے؟ ایک بار سوچئے گا ضرور۔۔۔۔۔۔

 


 

 

6th Urdu Textbook Test

6th Urdu Textbook Test 

 جماعت ششم کےلیے درسی کتاب پر مبنی آن لائن ٹسٹ دیا جار ہا ہے۔  ہر ٹسٹ میں تقریباً دس سوالات مع متبادل ہونگے ۔۔ کتاب سے سبق /نظم کا بغور مطالعہ کر کے حل کیجیے۔ سوالات حل کرنے کے لیے سبق کے نام پر کلک کریں۔ شکریہ


1۔ مناجات

2۔ حضرت عمرفاروقؓ

3۔سورج کے فائدے

4۔ کھدّر کا کفن

5۔مری پیاری چڑیو

6۔ لو، آگئی برسات

7۔ اے ماؤ ، بہنو ، بیٹیو

8۔ ڈاکٹر ذاکر حسین

9۔ کتاب

10۔ گھڑی

11۔ گرمی

12۔ جادوگروں کا الیکشن

13۔ ہونہار بیٹا

14۔ اوٗٹی کی سیر

15۔ یہ سنسار ہمارا ہے

16۔ انصاف

17۔ ایک بوند کی ہمت

18۔ اعتبار

19۔ شبنم

20۔






5th Urdu Textbook Test

 جماعت پنجم کےلیے درسی کتاب پر مبنی آن لائن ٹسٹ دیا جار ہا ہے۔  ہر ٹسٹ میں تقریباً دس سوالات مع متبادل ہونگے ۔۔ کتاب سے سبق /نظم کا بغور مطالعہ کر کے حل کیجیے۔

AreeBTM

سبق کے نام پر کلک کیجیے۔👇

1۔حمد

2۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ

3۔ گنگا

4۔ تین کچھوے

5۔اُمید

6۔گپ بازی کی سزا

7۔ پرانی کار

8۔ بہادر بچے

9۔ جگنو

10۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن

11۔ اللہ آبرو سے رکھے

12۔ ڈالفن

13۔ صبح کے نظارے

14۔ایک خواب

15۔ آیاجاڑا

16۔ خط

17۔ تلاش

18۔قدم بڑھاؤ دوستو

19۔ نام اور کام

20۔وقت کا گیت
21۔ کدّو عرف لوکی

22۔ شہد کی مکھی اور بِھڑ

23۔ محمد حاجی صابو صدیق

24۔ عجیب تحفے

25۔ موبائل

26۔ تالاب کا بھوت

جماعت ششم (6) کےسوالات کے لیے یہاں کلک کریں۔👇

                             Class 6th Urdu Text Book  

Sher aur Shair

انتخاب: نوشاد علی ریاض احمد۔
ذرا مسکرائیے 😍

مشاعرے اور لطیفے

         علی گڑھ یونیورسٹی میں ”اسٹوڈنٹس یونین“ کا سالانہ مشاعرہ ہو رہا تھا۔ ہر شاعر کو ہوٹ کرنے کا انداز یہ تھا کہ صرف ایک فقرہ کہا جاتا جس کے بعد شاعر نروس ہوکر بیٹھ جاتا اور کچھ نہیں پڑھ سکتا تھا۔ ایک ہی جملے میں اس کا کام تمام ہو جاتا۔ لکھنو سے بھی ایک شاعر صاحب آئے تھے، جو نام کے آگے سلمانی لکھتے تھے۔ پیشہ بھی موتراشی اور اصلاح گیسو تھا۔ لکھنو میں ایک بڑے ہیئر کٹنگ سیلون کے مالک تھے، مائک پر آتے ہی بولے:

عزیز طلبہ! مطلع سنو اور ردیف پر غور کرو۔‘‘ مطلع ہے۔ یہ کہہ کر پوری قوت سے یہ مصرع پڑھا:

’’محبت دکھ بھی ہے آرام بھی ہے‘‘

    ابھی دوسرا مصرع پڑھ نہیں پائے تھے کہ ایک لڑکے نے دوسر امصرع لگا دیا:

’’یہی شاعر یہی حجام بھی ہے‘‘

     اور بولا: ’’سلمانی صاحب ردیف دیکھئے ردیف!‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علی گڑھ کے ایک اور مشاعرے میں حسب دستور فقرہ بازی اپنے عروج پر تھی۔ ایک فقرہ کسا جاتا تھا اور شاعر بیٹھ جاتا۔ مولانا صابری کا نمبر آیا۔ مائک پر نام کا اعلان ہوا۔ مائک پر آتے ہی بڑے زور سے گرجے، برسے اور کہا

 ’’میں غزل نہیں پڑھوں گا، صرف ایک سوال کا جواب چاہتا ہوں۔ آج جس یونیورسٹی کے مشاعرے میں یہ بدتمیزی اور بد تہذیبی ہو رہی ہے، کیا یہ وہی دانش گاہ ہے، جس کا خواب سرسید احمد خان نے دیکھا تھا؟ پہلے اس سوال کا جواب دیا جائے پھر غزل پڑھوں گا۔‘‘

     ایک ذہین طالب علم جواب دینے کو کھڑا ہوا اور بولا:

 ’’چچا یہ دانش گاہ تو وہی ہے جس کا خواب سرسید احمد خان نے دیکھا تھا، مگر اس خواب میں ایسا مشاعرہ نہیں تھا، جس میں آپ غزل سرا ہوں۔‘‘

       یہ جواب سن کر مولانا بیٹھ گئے۔

        مشاعرے میں مشہور طنز و مزاح نگار شاعر، جناب ہلال سیوہاروی بھی شریک تھے۔ اپنی باری پر اسٹیج پر آگئے اور بولے:

 ’’مجھے پرھنے کا شوق نہیں، صرف دو قطعات برداشت کر لیجیے۔‘‘

 

         ایک لڑکا بولا: ’’برداشت کرلیں گے لیکن پہلے دوسرا قطعہ پڑھ دیں، وہ بہت اچھا ہے۔‘‘ 

       اس فقرے پر ہلال سیو ہاروی بغیر پڑھے ہی بیٹھ گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

https://teachingadds.blogspot.com


سلام مچھلی شہری کسی دور میں علی گڑھ یونیورسٹی کے محبوب شاعر تھے۔ اس یونیورسٹی کے پسندیدہ اور محبوب شاعر کا ایک مختصر سا دور ہوتا تھا، جو چار پانچ سال تک جاری رہتا۔ ایک زمانے میں معصوم رضا راہی پوجے جاتے تھے پھر سلام مچھلی شہری کا دور آیا لیکن اسٹوڈنٹس اپنے ہیرو کو بھی بخشتے نہیں تھے۔ سلام صاحب عالم سرور میں مائک پر آئے اور بولے

 ’’میں جب علی گڑھ یونیورسٹی کے مشاعرے میں پڑھتا ہوں تو رگ و پے میں کچھ تیرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہ چیز آج بھی میری رگ رگ میں تیر رہی ہے، اللہ جانے یہ کیا شے ہے؟‘‘

       ایک لڑکا بولا

 ’’سلام مچھلی شہری صاحب! یہ ’مچھلی‘ ہے جو آپ کے خون میں تیر رہی ہے۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ضمیر جعفری کی حاضر جوابی کا لطیفہ بھی فروغ عام پاچکا۔ ممتاز مزاح نگار محترم ضمیر جعفری مزاحاً بڑے بذلہ سنج واقع ہوئے تھے۔ کبھی حفیظ جالندھری سے غزلوں پہ اصلاح لیتے تھے، لیکن پھر فارغ الاصلاح ہوگئے۔ فارغ الاصلاح ہی کے زمانے میں ایک اچھی اور معیاری غزل اپنے استاذ جناب حفیظ جالندھری کو سنا رہے تھے۔ حفیظ صاحب نے مزاحاً فرمایا:

 ’’ضمیر اب تو تم کو غزل کہنا آگیا۔‘‘

        ضمیر صاحب نے بے ساختہ اور برجستہ جواب دیا:

 ’’حضور یہ سب آپ سے الگ ہونے کا فیض ہے۔‘‘ 

        ضمیر صاحب کی اس بذلہ سنجی پر خود استاد محترم حفیظ بھی ہنس پڑے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

         دہلی کی ایک محفل میں شعرا مزاحیہ کلام سنا رہے تھے۔ اس محفل میں فرقت کاکوروی، کباب علیگ، ماچس لکھنوی، ہلال سیوہاروی، واقف مراد آبادی، آفتاب لکھنوی جیسے مزاح نگاروں کے ساتھ ایک سنجیدہ شاعر گلزار دہلوی بھی شریک تھے۔ اس نشست میں شرط یہ تھی کہ ہر مزاح نگار صرف پیروڈی پڑھے گا۔ محفل کی صدارت کے لیے گلزار دہلوی کا نام تجویز ہوا تو انھوں نے اعتراض کیا

 

 ’’میں تو سنجیدہ شاعر ہوں۔ پیروڈی کی نشست کی صدارت کس طرح کر سکتا ہوں؟‘‘

          کنور مہندر سنگھ بیدی سحر نے فقرہ کسا:

 ”گلزار صاحب فکر نہ کریں، پیروڈی کی نشست کی صدارت آپ کا حق ہے۔ آپ صدر نہیں ہوں گے بلکہ صدر کی پیروڈی ہوں گے۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

      بدایوں کے ایک مقامی مشاعرے میں ایک صاحب غزل پڑھ رہے تھے مطلع کا پہلا مصرع پڑھا:

 ”دو کروٹوں میں رات بسر ہو کے رہ گئی

            اور فرمایا کہ دو کروٹیں میں لفظ دو مد نظر رہے۔ ایک لڑکے نے شاعر صاحب کا دوسرا مصرع پڑھنے سے پہلے ہی گرہ لگا دی۔

  ”کروٹ جو تیسری لی سحر ہو کے رہ گئی

        اس فقرے نے پوری محفل کو زعفران زار بنا دیا۔

ماخوذ

 

All Urdu Work Sheek

 آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ چھٹیوں کا فائدہ اُٹھائیے۔کلک کریں اور ڈاؤنلوڈ کریں۔👇

سمر اکٹیویٹی شیٹ

متعلق الفاظ شیٹ

اردو سرگرمی بیاض 4

لفظستان ورک شیٹ

الفاظ سازی ورک شیٹ

اردو سرگرمی  بیاض3

اردو سرگرمی بیاض 2

اردو اکٹیویٹی شیٹ

اردو سرگرمی بیاض1




BEOWDEY

 انشائیہ

 بیوڑے

از قلم :۔ عجیب انصاری صاحب ۔ مالیگاؤں ( مہاراشٹر)

 نہ جانے کس نامعقول شخص نے ان کو یہ معقول سا نام دے دیا ہے ۔ورنہ گزشتہ زمانے میں مے کش، رند، بادہ خوار، شرابی جیسے معزز القاب سے جانے جاتے تھے۔ لوگ کہتے ہیں کہ زمانہ بدل گیا، لوگ بدل گئے، پہلے بہت معزز، امراء، شعرا، شرفا روایتی اور تہذیبی انداز میں  مے کشی کیا کرتے تھے اور سرشاری کے عالم میں شعر بھی کہا کرتے تھے۔  جبکہ اس دور میں شراب کو تمام تر برائیوں کی جڑ تصور کیا جانے لگا ہے۔ میں اس بات سے نہ صرف اختلاف کرتا ہوں بلکہ اسے حقیقت سے پرے جارانہ الزام اور دروغ گوئی بھی قرار دیتا ہوں۔ مانا کہ شراب’’   اُم الخبائث‘‘ ہے لیکن آپ دیکھیں گے کہ خبیثوں کی اکثریت نہ صرف غیر شرابی ہے بلکہ سماج اور معاشرے میں بڑی معزز بھی بنی بیٹھی ہے۔بیوڑے بھائیوں پر جو غیر تعلیمی اور اردو زبان و ادب سے منہ موڑنے کا الزام لگایا جاتا ہے وہ بھی درست نہیں ہے۔ امبیڈکر پُل کے شراب خانے کی دیوار پر  اردو میں لگی ہوئی بھی ہدایت جو کچھ یوں ہے۔۔۔۔

 ایک اور دو کاٹر کے چُھٹّے پیسے دیں۔

 کاٹر پینے کے بعد کاٹر لے کے جانا منع ہے۔

 اندر بیٹھ کر پینے والے چکھنا لے کر اندر نہ آئیں ۔

 پارسل لے جانے والے پینے کے بعد کاٹر کی باٹلی پھوڑ کر راستے پر نہ پھینکیں۔

 ایک تاریخ سے سنترا اور ٹینگو کا بھاؤ تیس روپیہ ہو جائے گا۔

 اردو میں لکھی یہ ہدایت چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ غالب اور میر گرچہ نہ رہے لیکن شراب اور اردو کا تعلق ابھی بھی باقی ہے۔

باقی دنیا کی طرح بیوڑوں میں بھی آپ کو عدم مساوات واضح نظر آئے گی محنت کش، غریب مزدور، ریٹائرڈ بوڑھے آج بھی تیس والے پووئے پر اکتفا کرتے ہیں جبکہ نوکری پیشہ، عہدے داران، سرکاری افسران، سیاست دان پولیس آفیسر جیسے تمام ہی حرام خور اب دیسی سے اوب  کر بڑی تیزی سے انگریزی کی طرف کوچ کرنے لگے ہیں۔

 جن میں کنگ فشر، بلیو امپیرل، بیک پائپر، بُکارڈی، رائس ٹریک آفیسرز چوائس جیسے بے شمار ملکی و غیر ملکی  برانڈ شامل ہیں

انگریزی کو دیسی پر صرف اتنی فضیلت حاصل ہے کہ جلدی چڑھتی نہیں بشرط کہ ایک کے اوپر ایک نہ چڑھا لی جائے۔۔ اور دیسی ہے کہ چڑھ جائے تو اترنے کا نام نہیں لیتی اور جب اترتی ہے تو ساری عزت اتار کے اترتی ہے۔۔۔

 ایک عام رجحان بن گیا ہے کہ بُرے لوگ پیتے ہیں جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے اصل میں گنڈے مولیوں نے جب سے پینا بھی شروع کر دیا ہے تب سے بیوڑوں کی بڑی بدنامی ہو رہی ہے۔ ورنہ دنیا جانتی ہے کہ بیوڑے بھائی دنیا کی سب سے شانتی پُروک کمیونٹی میں شمار کیے جاتے ہیں۔ یہ سادھو اور جوگیوں کی طرح بڑے ہی رہبانیت پسند ہوتے ہیں جو دنیا کی نظروں سے بھی دور رہنا پسند کرتے ہیں ۔ شام ہوتے ہی اپنا پارسل لے کر جس میں ایک عدد پووا، دو سے تین لوگوں کے لیے کافی، پانی پاؤچ، پانی کا گلاس، چکنا، لیمو، اُبلے ہوئے انڈے، بومل وغیرہ ہوتے ہیں۔



 ایسی جگہ بیٹھتے ہیں جہاں آدم زاد کی نظر ہو نہ راہ گزر اور اگر پھر بھی کوئی بھولے بھٹکے ان کے قریب سے گزر جائے تو با آواز بلند سلام ضرور کرتے ہیں خیر خیریت پوچھنے کے بعد دو گھونٹ مارنے کی دعوت بھی ضرور دیتے ہیں۔

 عین یہی واقعہ میرے ساتھ بھی ہوا اے ٹی ٹی اسکول کے عقب سے گزرتے ہوئے جب بیوڑوں کی ایک جماعت نے  مجھے بھی بڑی محبت اور اپنائیت کے ساتھ ہی یوں  مدعو کیا کہ لو بھیا دو گھونٹ مارو۔

میں نے بھی کہا ا،رے نہیں چلنے دو،بسم اللہ کرو ۔پینے سے پہلے یہ لوگ کبھی بات چیت نہیں کرتے ، ہاں مال کون بنائے گا اس بات پر کبھی بحث و تکرار سے لے کر دستِ درازی تک کی نوبت آجاتی ہے۔ایک اچھا بیوڑہ ہونے کے لیے وقت کی پابندی بھی نہایت ضروری ہے کیونکہ اڈا بند ہونے کے بعد بلیک میں دُگنی قیمت میں ملتی ہے۔ دو گھونٹ کے بعد جب چکھنا بھی داخل شکم ہو تو ان کے بجھتے ہوئے وجود کو روشنی ملتی ہے۔ رگوں میں جمتا ہوا خون پھر دوڑنے لگتا ہے ۔زبان سے روح تک پھیلی ہوئی تشنگی کو  تسکین حاصل ہوتی ہے۔ بجھتی آنکھوں میں چمک لوٹ آتی ہے۔ پھر اس کے بعد گلی محلہ شہر گاؤں سے لے کر اقوام عالم تک غور و فکر ، علم ادب ،سیاست ،سماجیت، فلسفہ پر جو گفتگو ہوتی ہے وہ نہ صرف قابل سماعت بلکہ قابل دید بھی ہوتی ہے۔ مثلا کوّے کی بلند پروازپر  جھومتے ہوئے ایک بیوڑے نے دوسرے سے کہا،’’ چھوٹے! تجھے معلوم ہے صدام حسین کے پاس ایک ایسابم ہے اگر مار دے گا تو پوری دنیا تباہ ہو جائے گی۔ اس پر دوسرے بھیڑے نے کچھ علمی اختلاف یوں کیا کہ چھوٹے تیری بات صحیح ہے۔ بم صدام حسین کے پاس ہے لیکن اس کا ریموٹ امریکہ کے پاس ہے ۔یوں دونوں میں اتفاق ہوا ۔تیسرےبیوڑے نے کہا 1920 میں میرے دادا کے پاس اتنا پیسہ تھا کہ 100 کی نوٹ کی بیڑی بنا کے پیتے تھے۔ ڈاکٹر لوگ بولتے ہیں کہ مال پینے سے کڈنی خراب ہو جاتی ہے غلط بات ہے، ایک دم غلط بات۔ مال تو پیٹ میں جاتا کڈنی دماغ میں رہتی کیسے خراب ہو گی؟ عرض کہ ان کی محفلوں میں تاریخ جغرافیہ سیاست سماجیت علم و ادب ہر موضوع پر گفتگو ہوتی رہتی ہے جو ان کی شخصیت کے سلجھے پن اور سنجیدگی کی طرف اشارہ کرتی ہے اور جب کوئی داؤ نہ چلا تو ان کو محض بے دین قرار دیا ،تو بھائی اصل میں دین دار ہے بھی کون؟

 مومن صاحب ،مرزا صاحب ،مولانا صاحب ،کہ مفتی صاحب۔۔۔۔۔ ایک بار میں نے جب کسی بیوڑے بھائی سے کہا بھائی پینا چھوڑ دو پینا حرام ہے تو اس نے اس سے کہا کھانا چھوڑ دو کھانا بھی حرام ہے۔ پھر اس کے بعد اس نے جب تمام کھانوں  کا ذکر کیا جن میں مفت خوری ،کمیشن خوری، حرام خوری، چند ہ، ڈونیشن ،کمیشن ،تحفے ، ٹوپی بازی، دلالی ، بھڑوا گری، ضمیر فروشی جب وہ تمام نکات کا احاطہ کر کے خاموش ہوا تو پھر سمجھو کہ ان چراغوں میں روشنی نہ رہی ۔۔۔۔

 ان کے تقوی کا ایک واقعہ یوں مشہور ہے کہ ایک مرتبہ دو دوست تو بیٹھے پی رہے تھے جب ایک کو چڑھ گئی تو جھومتے ہوئے اس نے دوسرے کے گلاس سے اپنا گلاس ٹکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا چیس کر چھوٹے، جس پر دوسرے نے کہا ،نہیں بھائی چیس مت کرو چیس کرنا حرام ہے۔ان کی زندگی میں وقت کی پابندی اور ڈسپلین بھی بلا کا ہوتا ہے یوں نہیں کہ چائے نوشوں کی طرح بس کبھی بھی منہ اٹھائے اور چل دیے ۔دن بھر کی اپنی مصروفیات اور ذمہ داریوں سے فارغ ہونے کے بعد شام کو آرام سے نکلتے ہیں ۔جبکہ کچھ سنیئر بیوڑوں  کو صبح کے اولین ساعتوں میں بالکل ناشتے میں صبح کی چائے کے ساتھ پینے کی طلب لگتی ہے تب اٹھتے ہی موسم پُل  کی طرف چل پڑتے ہیں یہ شہر کا وہ واحد شراب خانہ ہے جو صبح کھلتا ہے۔ یہاں  دور دور سے لوگ جیسےتیسے  دن کا اجالا پورا ہونے سے پہلے ہی پہنچ جاتے ہیں سامنے ریت کی احاطے  میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر اکڑوں  بیٹھ جاتے ہیں انتظار کی ان گھڑیوں میں بیڑی ان کا بڑا سہارا ہوتی ہے بیڑی پیتے جاتے ہیں کھانستے جاتے اور بار بار ایک دوسرے سے ٹائم پوچھتے ہیں۔سات بج گیا ابھی تک آیا نہیں سالا۔۔۔ روز کا ہے اس کا، سیٹھ کو بولنا پڑے گا۔ تب جا کر دونوں ٹائر میں جھالر لگی سائیکل پر ان کے انتہائی بد شکل بدتمیز لیکن مساوات اور انصاف پسند ساقی کی آمد ہوتی ہے۔ مساوات اور انسان پسند، یوں معنوںمیں کہ کسی سے بھی اگر کانچ کا گلاس ٹوٹ جائے تو بنا ذات پات ،عمر کی تمیز کیے بغیر  وہ سب کو ایک جیسی گندی گالیاں دیا کرتا تھا ۔ بات صرف اتنی نہیں تھی ساقی کے ستم اور بھی تھے یعنی اڈے پہ پہنچنے کے بعد بھی وہ گھنٹوں سے انتظار میں بیٹھے لوگوں کی تسکین کا سامان کرنے کے بجائے اپنی صبح کی فارملٹی پہلے پوری کرتا ۔جن میں سب سے پہلے درخت سے ٹیک لگا کر سائیکل کھڑی رکھنا، چھت پر چھپا کر رکھے گئے جھاڑو سے پورے احاطے کی صفائی کرنا ،چند ایک کہ احاطے  میں پڑی بوتلوں کو بھنگاروالے  کے لیے تھیلے میں جمع کرنا، تالا کھول  کر پہلے مورتی اور فریم کے پاس ماتھا ٹیکنا ، اس کے بعد ٹیپ ریکارڈر پر سائیں بابا کی آرتی بجانا ،انتظار اور صبر کے یہ لمحات بیوڑوں کے لیے جتنے مشکل ہوتے ہیں جس کا بیان بھی مشکل ہے ۔پھر اس کے بعد وہ باآوازِ بلند اعلان کرتا کہ جن کے پاس چھٹے پیسے ہیں وہ پہلے آؤ۔یوں  ان کے دن کا آغاز ہوتا ۔۔۔

پینے کے آداب کا ذکر تو ہم نے پہلے ہی کر ابھی آپ نے اس کے حصول کی جدوجہد بھی دیکھی۔ اب ایک بہت اہم مرحلہ پینے کے بعد کا بھی ہوتا ہے جس کا بھی برسوں بغور مشاہدہ کرنے کے بعد جو نتائج اخذ کیے گئے ہیں وہ پیش خدمت ہے۔۔۔

 پینے کے بعد چڑھنے کا تعلق تو برانڈ ہوتا ہے۔ 40 والا پووا  نشہ لانے میں بھی بے مثال سمجھا جاتا ہے اس کا نشہ بھی بڑا دیسی قسم  کا ہوتا ہے ۔راستوں پر ، سڑک کے  کنارے ،گٹر میں گرے پڑے سب اسی کا شکار ہوتے ہیں جبکہ انگریزی میں نشے  کی کفیت اتنی نہیں ہوتی  ہے ۔ خاص کر شراب کو جس طرح آفاقی حیثیت حاصل ہے یعنی دنیا بھر میں پی جاتی ہے اسی طرح اس سے جُڑے معاملات  بھی وہی حیثیت کے حامل ہیں۔  مثلاً  ملک  کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں پینے کے بعد جو الفاظ بیوڑوں بھائیون کے منہ سے نکلتے ہیں وہ بھی آفاقی حیثیت کے حامل ہیں۔ مثلاً                      آج مزہ نہیں آیا۔ اب پہلے جیسی دارو نہیں آتی ۔۔۔صرف بھاؤ بڑھاتے  جا رہے۔۔ ۔آج کی آخری ہے کل سے پینا بند۔۔۔ اپنی محنت کے پیسے کی پیتا کس کے باپ کی نہیں پیتا۔۔۔۔۔  لگتا ہے تجھے چڑھ گئی میں تجھے گھر چھوڑنے چلوں گا۔۔۔ اور اس ساتھی پر تو مر جانے کو ہی جی  کرتا ہے جب وہ یہ کہتا ہے  کہ تو یہ مت سمجھ کہ مجھے چڑھ گئی ہےتو تم ایسا بول رہا ہوں۔۔۔ میں ایک دم ہوش میں ہوں  ۔مجلس کی برخاستگی کے بعد گھر تک کا سفر بھی کوئی آسان اور سادہ نہیں ہوتا۔۔ بیوڑوں کی اکثریت تو فلمی گانوں کو اولیت دیتی ہے جس میں چند مخصوص گانے ،ہم نے گھر چھوڑا ہے۔۔۔۔ رہنے کو گھر نہیں سونے کو بستر نہیں ۔۔۔۔ابھی زندہ ہو تو جی لینے دو بھری برسات میں پی لینے دو۔۔۔۔دوران سفر بھائیوں کے پسینے پسندیدہ نغمے ہیں۔

 عاشقانہ مزاج بیوڑے  تمھیں اپنا ساتھی بنانے سے پہلے۔۔۔۔ سے لے کر چاندی کی دیوار نہ تھوڑی وغیرہ۔ اگر ان میں انقلابی قسم کا بیوڑا ہو تو تقریر کرتا ہوا چلتا ہے۔ تم مجھے ووٹ دو میں تمہیں پھول دوں گا۔۔۔ انقلاب زندہ باد۔۔۔ وغیرہ۔ گھریلو حالات سے متاثر بیوڑے پورا راستہ یہی کہتے ہوئے چلتے ہیں کہ تجھے معلوم ہے مجھے بھنڈی پسند نہیں تو، تو نے پکائی  کیوں؟ اور اگر آپ انہیں نوٹس کریں تو یہ سودان کی حالت میں رک کر آپ کو کچھ یوں سلام کرتے ہیں ۔ہیلو سر! السلام علیکم  ۔۔ دیز ایس واٹ از ۔۔۔۔ بکوز  ناٹ ا ز  ایبسولوٹلی رائٹ ۔۔۔۔۔سیٹ اپ ۔۔۔۔۔۔اینڈ  تھینک یو ۔۔۔۔۔چلو سر چلتا ہوں۔۔۔۔

کہا جاتا ہے کہ لال کپڑوں کو دیکھ کر سانڈ بھڑک  جاتے ہیں لیکن   آوارہ سرنڈوں کو دیکھ کر بیوڑے بھڑک  جاتے ہیں اور ان کی سینگ پکڑ کر ان کو للکارتے ضرور ہیں جس کے نتیجے میں اپنے کولھوں  کے دونوں پیالے اور دونوں انڈے بھی پھوٹ   بیٹھتے ہیں۔ کتّا انہیں  دیکھ کر بھونک دےتو سیدھا سوال کرتے ہیں بھائی صاحب! میں نے آپ کا کیا بگاڑا ؟مجھے جانے دو ۔۔۔گٹر اور گندے نالے تو انہیں مقناطیس کی  طرح کھینچتے ہیں اور لڑکھڑاتے ہوئے جب تک وہ اس میں گر کر لوٹ نہ لیں ،مراحل شوق ہے کہ مکمل ہی نہیں ہوتا

ایسی بے شمار مشکلات اور مراحل سے گزر کر یہ گھر پہنچتے ہیں آخر میں میں اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ بیوڑوں کی  خدمات کا اعتراف کیا جائے اور ان کا ایک عالمی دن مقرر کیا جائے۔۔

شکریہ!!!

#BEOWDEY #NAUSHADALI19881

SUMMER ACTIVITY SHEETS


SUMMER ACTIVITY SHEETS

ہم اپنی نسل نو کے لیے بہت سی توقعات رکھتے ہیں مگر ان توقعات پر پورا اترنے کے لیے ان کو وسائل مہیا نہیں کرتے۔۔۔  ہم اپنے طلباء سے بہت سی امیدیں رکھتے ہیں لیکن ہم انہیں وسائل نہ دیں تو وہ ہماری امیدیں پر پورا نہیں اتر سکیں گے مثلا ہم طلباء میں استعداد اور صلاحیت کو پروان چڑھنا چاہتے ہیں تو انہیں وسائل دینا بھی ان کا حق ہے۔۔۔۔

یہاں سے آپ ڈاؤن لوڈ کیجیے۔