مشاعرے اور
لطیفے
علی گڑھ یونیورسٹی میں ”اسٹوڈنٹس
یونین“ کا سالانہ مشاعرہ ہو رہا تھا۔ ہر شاعر کو ہوٹ کرنے کا انداز یہ تھا کہ صرف
ایک فقرہ کہا جاتا جس کے بعد شاعر نروس ہوکر بیٹھ جاتا اور کچھ نہیں پڑھ سکتا تھا۔
ایک ہی جملے میں اس کا کام تمام ہو جاتا۔ لکھنو سے بھی ایک شاعر صاحب آئے تھے، جو
نام کے آگے سلمانی لکھتے تھے۔ پیشہ بھی موتراشی اور اصلاح گیسو تھا۔ لکھنو میں ایک
بڑے ہیئر کٹنگ سیلون کے مالک تھے، مائک پر آتے ہی بولے:
’’عزیز طلبہ! مطلع سنو اور ردیف پر غور کرو۔‘‘ مطلع ہے۔ یہ
کہہ کر پوری قوت سے یہ مصرع پڑھا:
’’محبت دکھ بھی ہے آرام بھی
ہے‘‘
ابھی دوسرا مصرع پڑھ نہیں
پائے تھے کہ ایک لڑکے نے دوسر امصرع لگا دیا:
’’یہی شاعر یہی حجام بھی ہے‘‘
اور
بولا: ’’سلمانی صاحب ردیف دیکھئے ردیف!‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علی
گڑھ کے ایک اور مشاعرے میں حسب دستور فقرہ بازی اپنے عروج پر تھی۔ ایک فقرہ کسا
جاتا تھا اور شاعر بیٹھ جاتا۔ مولانا صابری کا نمبر آیا۔ مائک پر نام کا اعلان
ہوا۔ مائک پر آتے ہی بڑے زور سے گرجے، برسے اور کہا:
’’میں غزل نہیں پڑھوں گا،
صرف ایک سوال کا جواب چاہتا ہوں۔ آج جس یونیورسٹی کے مشاعرے میں یہ بدتمیزی اور بد
تہذیبی ہو رہی ہے، کیا یہ وہی دانش گاہ ہے، جس کا خواب سرسید احمد خان نے دیکھا
تھا؟ پہلے اس سوال کا جواب دیا جائے پھر غزل پڑھوں گا۔‘‘
ایک ذہین طالب علم جواب دینے کو کھڑا
ہوا اور بولا:
’’چچا یہ دانش گاہ تو وہی
ہے جس کا خواب سرسید احمد خان نے دیکھا تھا، مگر اس خواب میں ایسا مشاعرہ نہیں
تھا، جس میں آپ غزل سرا ہوں۔‘‘
یہ
جواب سن کر مولانا بیٹھ گئے۔
مشاعرے
میں مشہور طنز و مزاح نگار شاعر، جناب ہلال سیوہاروی بھی شریک تھے۔ اپنی باری پر
اسٹیج پر آگئے اور بولے:
’’مجھے پرھنے کا شوق نہیں، صرف دو قطعات برداشت کر لیجیے۔‘‘
ایک
لڑکا بولا: ’’برداشت کرلیں گے لیکن پہلے دوسرا قطعہ پڑھ دیں، وہ بہت اچھا ہے۔‘‘
اس
فقرے پر ہلال سیو ہاروی بغیر پڑھے ہی بیٹھ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلام
مچھلی شہری کسی دور میں علی گڑھ یونیورسٹی کے محبوب شاعر تھے۔ اس یونیورسٹی کے
پسندیدہ اور محبوب شاعر کا ایک مختصر سا دور ہوتا تھا، جو چار پانچ سال تک جاری
رہتا۔ ایک زمانے میں معصوم رضا راہی پوجے جاتے تھے پھر سلام مچھلی شہری کا دور آیا
لیکن اسٹوڈنٹس اپنے ہیرو کو بھی بخشتے نہیں تھے۔ سلام صاحب عالم سرور میں مائک پر
آئے اور بولے:
’’میں جب علی گڑھ یونیورسٹی کے مشاعرے میں پڑھتا ہوں تو رگ
و پے میں کچھ تیرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہ چیز آج بھی میری رگ رگ میں تیر رہی ہے،
اللہ جانے یہ کیا شے ہے؟‘‘
ایک
لڑکا بولا:
’’سلام مچھلی شہری صاحب! یہ
’مچھلی‘ ہے جو آپ کے خون میں تیر رہی ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضمیر جعفری کی حاضر جوابی
کا لطیفہ بھی فروغ عام پاچکا۔ ممتاز مزاح نگار محترم ضمیر جعفری مزاحاً بڑے بذلہ
سنج واقع ہوئے تھے۔ کبھی حفیظ جالندھری سے غزلوں پہ اصلاح لیتے تھے، لیکن پھر فارغ
الاصلاح ہوگئے۔ فارغ الاصلاح ہی کے زمانے میں ایک اچھی اور معیاری غزل اپنے استاذ
جناب حفیظ جالندھری کو سنا رہے تھے۔ حفیظ صاحب نے مزاحاً فرمایا:
’’ضمیر اب تو تم کو غزل
کہنا آگیا۔‘‘
ضمیر
صاحب نے بے ساختہ اور برجستہ جواب دیا:
’’حضور یہ سب آپ سے الگ ہونے کا فیض ہے۔‘‘
ضمیر
صاحب کی اس بذلہ سنجی پر خود استاد محترم حفیظ بھی ہنس پڑے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دہلی
کی ایک محفل میں شعرا مزاحیہ کلام سنا رہے تھے۔ اس محفل میں فرقت کاکوروی، کباب
علیگ، ماچس لکھنوی، ہلال سیوہاروی، واقف مراد آبادی، آفتاب لکھنوی جیسے مزاح
نگاروں کے ساتھ ایک سنجیدہ شاعر گلزار دہلوی بھی شریک تھے۔ اس نشست میں شرط یہ تھی
کہ ہر مزاح نگار صرف پیروڈی پڑھے گا۔ محفل کی صدارت کے لیے گلزار دہلوی کا نام
تجویز ہوا تو انھوں نے اعتراض کیا:
’’میں تو سنجیدہ شاعر ہوں۔ پیروڈی کی نشست کی صدارت کس طرح
کر سکتا ہوں؟‘‘
کنور
مہندر سنگھ بیدی سحر نے فقرہ کسا:
”گلزار صاحب فکر نہ کریں،
پیروڈی کی نشست کی صدارت آپ کا حق ہے۔ آپ صدر نہیں ہوں گے بلکہ صدر کی پیروڈی ہوں
گے۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدایوں
کے ایک مقامی مشاعرے میں ایک صاحب غزل پڑھ رہے تھے مطلع کا پہلا مصرع پڑھا:
”دو کروٹوں میں رات بسر ہو
کے رہ گئی“
اور
فرمایا کہ دو کروٹیں میں لفظ دو مد نظر رہے۔ ایک لڑکے نے شاعر صاحب کا دوسرا مصرع
پڑھنے سے پہلے ہی گرہ لگا دی۔
”کروٹ جو تیسری لی سحر ہو
کے رہ گئی“
اس
فقرے نے پوری محفل کو زعفران زار بنا دیا۔
ماخوذ
No comments:
Post a Comment