کمنڈل سے کیری بیگ تک
قلمکار:۔ نعیم سلیم ، مالیگاؤں ، ناشک
مہاراشٹر
پلاسٹک کے اس دور میں اگر
ہم بچوں سے پوچھیں کہ کمنڈل کسے کہتے ہیں؟ تو ممکن ہے وہ بتادیں لیکن زمانے کی تیز
رفتار ترقی کے پیش نظر دس سال بعد کا تصور کریں اور اُس وقت کے کسی بچے سے پوچھیں، بیٹا کمنڈل کسے کہتے ہیں..؟ تو
وہ حیرت سے ہمارا منہ تکے گا کہ کیا احمقانہ
سوال پوچھا ہے۔بچہ زیادہ چالاک رہا تو کہہ دیگا کہ جس طرح مراٹھی لفظ منڈل
ہے۔اسی طرح کمنڈل بھی ہوگا.......
ماضی قریب میں صبح سے رات
تک گلی محلے سڑکوں پر کمنڈلوں کی بہاریں نظر آتی تھیں۔ناشتے کے مختلف آئٹم، چائے،دودھ،تیل
وغیرہ،اسی طرح رات میں کھاناولوں پر پارسل لےجانے کیلئے کمنڈلوں کی قطاریں نظر آتی
تھیں۔۔۔کیا چھوٹے کیا بڑے سبھی بڑی شان سے کمنڈل ہلاتے ڈُلاتے مختلف اشیاء لاتے لے
جاتے تھے۔بچوں کے ہاتھوں میں کوئی کھیلنے
والی چیز نہ ہو تو ایک عدد کمنڈل ضرور نظر آتا تھا۔۔۔۔۔
پاس پڑوس میں ایک دوسرے
کے تئیں خلوص اور محبت کی غالباً سب سے بڑی علامت یہی کمنڈل ہوا کرتا تھا۔ایک گلاس
سے بھی چھوٹی سائز سے لیکر ایک جگ یا کلسی کی سائز تک کے کمنڈل دستیاب رہا کرتے
تھے۔ایک گھر میں دوسے زائد کمنڈل بھی کم پڑتے تھےکیونکہ افراد سے زیادہ کمنڈل
متعلقین کے گھروں میں گردش کیا کرتے تھے۔۔۔۔
گھر میں اچھا پکوان بنا جھٹ بڑے بوڑھے
بہن بیٹیوں کے گھر کمنڈل میں پہنچانے کا انتظام کرتے۔۔۔کمنڈل کی قسمت کا
ستارہ اس وقت چمکتا جب لڑکی لڑکے کا رشتہ پکاّ ہوجانے کے بعد مختلف
پکوان (زبردستی ہی سہی ) طرفین کے گھروں
میں پہنچاتے اور جن کے یہاں بھرا کمنڈل آتا اسے خالی واپس نہ کرتے۔اسی کمنڈل میں
اچھا پکوان بنا کر یا کم ازکم مٹھائی وغیرہ رکھ کر واپس کرتے۔اس رسم سے نجانے کتنے
بچوں کو چھپ چھپاکر مٹھائی کھالینے کا موقع میسر آجاتا تھا۔ خیر، اس
سے کمنڈلوں کی اہمیت سمجھی جاسکتی ہے۔ہوسکتا ہے اب بھی کچھ گھرانوں میں
کمنڈل کا رواج محض اس رسم کو نبھانے کیلئے چل
رہا ہوگا۔ارے بھئ عوام کی اکثریت سادہ کھانا کھاتے اور پکاتے تھے۔ایسے میں
مرغن غذائیں کمنڈل میں آجائیں تو بھلا کون خالی واپس کرے۔اب مرغن غذائیں عام ہیں
تو کیا کوئی بھیجے۔
ایک دوسرے کو کمنڈل دینے
میں لوگوں کے کترانے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ کمنڈل ایک سے دوسرے،دوسرے سے
تیسرے چوتھے گھر گردش کرتا تھا اور جب اسکے مالک کو ضرورت ہوتی تو لیجانے والے گھر
کے بڑے یا بچے دو تین گھروں کا چکر لگاتے تب وہ ہاتھ آتا۔۔۔دوسری وجہ اسکا تبدیل
ہوجانا یا اسکے ڈھکن کا بدل جانا تھا۔اسلئے لوگ جتا کر دیتے تھے کہ کام ہوجائے تو
فوراً واپس کردینا۔ڈھکن تبدیل نہ ہو نے دینا وغیرہ....
ایک موقع ایسا آتا تھا کہ
لوگ اپنا جائز و ناجائز غصہ کمنڈلوں پر اتارتے تھے۔جی ہاں شادی بیاہ کی تقریبات
میں کھانا ختم ہوجاتا تو یہ چرچا سننے میں آتی، طبیعت سے کمنڈل چل گیا،اسلئے کھانا
گھٹ گیا۔۔۔۔اور واقعئ کچھ ایسے بھی لوگ تھے جن کے نام سے کھانا کمنڈلوں میں جاتا
اور وہ لوگ شادی کے منڈپ میں آکر کھاتے تھے اور کمال تو یہ ہیکہ عوام میں بدنام ہوجانے کے بعد بھی اپنی حرکتوں سے باز
نہیں آتے تھے۔۔۔چنانچہ سارا کا سارا الزام کمنڈلوں کے سر جاتا ہوا دیکھ کر ہمارے
ذمہ داروں نے فیصلہ کیا اور اس حکم کو عام کردیا کہ شادی کی دعوت میں کمنڈل قطعی
نہ لائیں۔جو مجبور ہیں انکے لئے علاحدہ سے پکا لیں۔۔۔۔
کمنڈل کے اس سنہری دور کا
خاتمہ پلاسٹک کیری بیگ کی وجہ سے ہوا۔جب سے کیری بیگ مارکیٹ میں آئی کمنڈل فیکٹریوں کا حال پتہ نہیں کیا ہوا مگر ہم
کمنڈل دیکھنے سے ترس گئے۔ اب گھر کے کسی کونے میں لٹکا دکھائی دیتا ہے ۔روز مرہ
استعمال کی اکثر چیزیں دودھ ،چائے،کافی،تیل،شربت،کرانہ،میڈیکل،اسٹیشنری وغیرہ کے
تمام آئٹمس کیری بیگ میں دستیاب ہیں۔
کیری بیگ اتنے کام کی چیز ہیکہ چندسال
کا بچہ بھی جانتا ہے اور چند ماہ کا بھی کہ ضرور اسمیں مٹھائی وغیرہ ہوگی کیری بیگ
کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ہمارے عزیز دوست معروف ادیب طاہر انجم صدیقی صاحب نے برسوں پہلے کیری
بیگ عنوان سے ایک افسانہ لکھ ڈالا تھا۔۔۔۔
بھلے ہی دوسری چیزوں میں انسان کالے
رنگ کو نظر انداز کرتا ہے۔لیکن۔۔۔۔۔۔۔
کیری بیگ کے معاملے میں اکثر دوکانداروں سے کالے
کلر کی فرمائش کرتا ہے۔رنگین کیری بیگ اور کالی کیری بیگ میں صرف اتنا فرق ہے کہ
ہم جن چیزوں کو پردے میں لیجانا چاہتے ہیں
تو انہیں کالی کیری بیگ اور جنھیں بتاکر یا جتاکر
لیجانا چاہتے ہیں تو رنگین یا سفید کیری بیگ میں تاکہ غلط فہمی کی
کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔۔۔۔۔۔
کیری بیگ میں لیجانے والی
وزنی چیزیں اکثر گرجاتی تھیں اور انسان پلاسٹک کا ہینڈل ہاتھوں میں تھامے بڑی حسرت
سے گری ہوئی شئے دیکھا کرتا تھا یہ پلاسٹک کمپنیوں کو نہ دیکھا گیا تو انہوں نے
کافی جاڑی اور مضبوط تھیلیاں بنانا شروع کیں جسمیں وزن دار اشیاء رکھی جاسکتی ہیں۔اسلئے
کچھ لینے کیلئے اب گھر سے کمنڈل ودیگر برتن لے کر نکلنا شان کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ہر
چند کہ کیری بیگ کا استعمال صرف اور صرف گندگی بڑھانے کا ذریعہ بن رہا ہے۔سڑکوں،گلیوں
میں جابجا اڑتی پھرتی کیری بیگ گٹروں میں جائے تو گٹر بلاک کردے۔مگرہمیں اس سے کیا
؟ ہم تو کارپوریشن اور عوامی نمائندوں کو ہی گندگی کا ذمہ دار کہیں گے۔۔۔۔
کبھی کبھی میں مشہور زمانہ قوالی، ‘‘چاند کو چھونے والے انساں
دیکھ تماشا لکڑی کا ’’ سنتا ہوں تو دل بے
اختیار چاہتا ہے کہ عصر حاضر کا کوئی شاعر
اس کے جواب میں ‘‘ چاند کو چھونے
والے انساں دیکھ تماشا پلاسٹک کا ’’ عنوان
سے لکھے۔میرے ہم مزاج دوست ادیب وشاعر فرحان دل صاحب ہی لکھ دیں تو اسے لطیف حیراں
صاحب سے پڑھواکر جھوم لیں گے۔۔۔
ایک کیری بیگ کا ہی کیا رونا آجکل روزمرہ استعمال کی بے شمار اشیاء پلاسٹک کی بن رہی ہیں اور یہ سب یوز اینڈ تھرو فارمولے پر بن رہی ہیں۔اسلئے جدھر نظر اٹھاؤ ادھر پلاسٹک نظر آتی ہے۔۔۔۔پلاسٹک کی خوبی یا خامی ہے کہ وہ جلد سڑتی گلتی نہیں ہے اسلئے جابجا کچروں کا ڈھیر،پلاسٹک کا انبار نظر آتا ہے۔کاش اس کے نعم البدل کے طور پر پھر سے کمنڈل کا دور نہ بھی آئے تو کم ازکم پلاسٹک کا استعمال محدود ہوجائے تاکہ گندگی پر کنٹرول ہوسکے۔۔۔۔۔۔(گزشتہ دنوں حکومت مہاراشٹر نے پلاسٹک پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اندرون تین ماہ پرانا اسٹاک ختم کرنے پر مکمل طور پر پابندی لگ جائے گی. پھر شاید کمنڈل نظر آنے لگیں)
4 comments:
بہترین
بچپن کی یاد دلا دی آپ نے
بچپن میں اسکو دیکھا تھا.. اور یہ لفظ کا استعمال بھی کبھی کبھی ہوتا ہے اب
بہت بہت شکریہ
Post a Comment