Global Warming

 Global Warming  

آپ کو کیا لگتا ہے یہ ممکن ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔

گلوبل وارمنگ روکنے کے لیے چاند کی مٹی سے مدد لی جائے گی۔

 

سائنسدانوں کے مطابق اگر چاند کی مٹی یا دھول کو زمین اور سورج کے درمیان حائل کردیا جائے تو زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کو روکا جا سکتا ہے۔

واشنگٹن: جیسے جیسے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور آب و ہوا کی تبدیلی بڑے پیمانے پر تباہ کاریوں کا سبب بن رہی ہے، سائنس دانوں کی تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے اور وہ گلوبل وارمنگ کو روکنے کے لیے نئے نئے حل سامنے لا رہے ہیں، جن میں کچھ واقعتاً بہت دلچسپ ہیں۔

 حال ہی میں سائنس دانوں نے ایک نیا نظریہ پیش کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر چاند کی مٹی یا دھول کو زمین اور سورج کے درمیان حائل کر دیا جائے تو زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا عمل نہ صرف رُک جائے گا بلکہ اس میں کمی آنا شروع ہو جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر سورج کی حرارت کے زمین تک پہنچنے کا ایک سے دوفی صد کا راستہ روک دیا جائے تو کرہ ارض کے درجہ حرارت میں ایک ڈگری سینٹی گریڈ کی کمی ہو جائے گی۔

وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ماحولیات کے سائنسداں اس وقت ایسے اقدامات پر زور دے رہے ہیں جس سے زمین کے درجہ حرارت میں تقریباً ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ کی کمی ممکن ہو سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ درجے کی کمی سے زمین کا درجہ حرارت گر کر اس سطح پر چلا جائے گا جب صنعتی ترقی کا آغاز ہوا تھا۔ اس دور کے موسم ماحول دوست تھے اور موسم سے منسلک وہ قدرتی آفات کم کم ہی آتی تھیں جنہوں نے اب گھر کا راستہ دیکھ لیا ہے اور آئے روز کہیں خشک سالی، کہیں شدید بارش اور سیلاب اور کہیں سمندری طوفان تباہیاں پھیلا رہے ہیں۔



سائنسداں کہتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ کا سبب کاربن گیسیں ہیں جو کارخانوں کی چمنیوں ، گاڑیوں کے سائلنسروں اور گھروں کے آتش دانوں سے نکل رہی ہیں۔ انسان کی لائی ہوئی ترقی اب اس کیلئے بربادی کا باعث بن رہی ہے۔ سائنسداں کاربن کیسوں کا اخراج صفر کی سطح پر لانے پر اصرار کرتے ہیں لیکن ۲۰۰  برسوں میں کو نکلے اور معدنی ایندھن جلا کر حاصل ہونے والی ترقی کوکسی متبادل بند و بست پر لانا آسان نہیں ہے۔ اس کیلئے کثیر سرمایہ، وقت اور تحقیق کی ضرورت ہے۔ کچھ عرصے سے ماہرین کی توجہ کسی ایسے قابل عمل طریقے کی تلاش پر مرکوز ہے جوستا بھی ہو۔ جس کیلئے ان کی نظریں خلا پر جمی ہیں۔ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ جب آسمان پر بادل چھا جاتے ہیں تو زمین پر قدرے خنکی محسوس ہونے لگتی ہے کیونکہ بادل کی نہیں سورج کی حرارت کے ایک بڑے حصے کو زمین پر جانے سے روک دیتی ہیں اور حرارت کی لہریں واپس خلا میں پلٹ جاتی ہیں۔ اسی طرح کا ایک بڑا واقعہ ۱۹۹۱ء میں فلپائن کے آتش فشاں ماؤنٹ پیناٹو بو کے پھٹنے سے پیش آیا تھا جس سے نکلنے والے گرد و غبار نے فضا کے ایک حصے کو ڈھانپ لیا تھا جس سے سورج سے زمین پر آنے والی حرارت کی لہروں کے درمیان ایک رکاوٹ کھڑی ہو گئی تھی۔ اس کے نتیجے میں زمین کے شمالی نصف حصے میں ایک سال تک درجہ حرارت معمول سے تقریبا آدھا ڈگری کم رہا تھا۔ زمین اور سورج کے درمیان چاند کی دھول اور مٹی کے تہہ بچھانے سے قبل کئی سائنسداں اس پہلو پر بھی سوچ بچار کرتے رہے ہیں کہ خلا میں بڑے بڑے آئینے نصب کر دیے جائیں جو زمین کی طرف آنے والی سورج کی حرارت کو واپس پلٹ دیں۔ خلا میں بے شمار سیاروں کا گردو غبار گردش کر رہا ہے۔ ماہرین فلکیات نے کمپیوٹر پر بنائے گئے ماڈلز کے ذریعے مختلف سیاروں کی گرد کا مطالعہ کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ اس مقصد کے لیے سب سے اچھا انتخاب چاند کی مٹی ہے جو سب سے زیادہ حرارت روکتی ہے۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ اگر اس مٹی کو زمین اور سورج کے درمیان ایک ایسے مقام پر بکھیر دیا جائے جہاں زمین اور چاند کی کشش کی قوت برابر ہو تو وہ مٹی وہاں مستقلاً موجود رہے گی اور سورج کی حرارت کی اتنی مقدار روک سکے گی جس کا تعین ماہرین کریں گے۔


6 comments:

ALIKAUSER said...

نہایت ہی عمدہ اور بہترین مضمون.. معلومات میں اضافہ ہوا

Farhan FM said...

Informative article 👌👌👌

Ansari Akhlaque Ahmed said...

छान

Ansari Akhlaque Ahmed said...

Jeete raho

Ansari Akhlaque Ahmed said...

Articles is informative

Ansari Akhlaque Ahmed said...

Good information about sun and moon on the road of temperature. 😜