Dr.Zakir Husain

 ڈاکٹر ذاکر حسین :۔ایک طلسماتی شخصیت۔۔۔۔

ڈاکٹر ذاکر حسین (پ: 8/فروری 1897 ، م: 3/مئی 1969)

ماہر تعلیم، سیاست دان۔ حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ مورث اعلیٰ حسین خان تیموری حکمران محمد شاہ کے ابتدائی دور میں افغانستان سے آکر روہیل کھنڈ کے قصبہ قاسم گنج میں آباد ہو گئے تھے۔ ذاکر صاحب کے والد فدا حسین خان نے 1888ء میں حیدرآباد دکن میں رہائش اختیار کر لی۔ ذاکر صاحب نے حیدرآباد دکن، دہلی اور علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں جرمن یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی۔ دوران تعلیم آزادی کی تحریکوں میں بھرپور حصہ لیا اور تحریک خلافت و ترک موالات کے سلسلے میں قید و بند کی سختیاں برداشت کیں۔ جب جامعہ ملیہ اسلامیہ جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مقابلے پر قائم کی گئی تھی، دہلی منتقل ہوئی تو ذاکر صاحب اس کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ آزادی کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نامزد ہوئے۔ 1957ء میں صوبہ بہار کے گورنر مقرر کیے گئے۔ 1967ء میں بھارت کے صدر منتخب ہوئے۔ مشہور ادیب، مورخ اور محقق ڈاکٹر یوسف حسین خان اور معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر محمود حسین خان ان کے چھوٹے بھائی تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تقسیمِ وطن کے بعد ایک بڑے بحران کا شکار ہو چکی تھی۔ لہٰذا ۱۹۴۸ء سے لے کر ۱۹۵۶ء تک انھیں خصوصی طور پر اس یونیورسٹی کی سربراہی سونپی گئی۔ انھوں نے ناشروں، طلبا کے رہنمائوں، اساتذہ وغیرہ سے کئی مراسلے کیے۔ ان مراسلوں میں مسلم یونیورسٹی اور آزاد ہندوستان کی تعلیم و سیاست کی تاریخ لکھنے میں بہت بڑی مدد ملے گی۔ انھوں نے مرکزی حکومت کے شعبۂ تعلیم اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن سے مسلسل مراسلے کے ذریعہ یونیورسٹی کے لیے نہ صرف فنڈ حاصل کیا بلکہ کئی نئے شعبے قائم کیے۔ اس کے علاوہ پرانے شعبوں کو وسعت و توانائی بخشی۔ انھوں نے کئی ملکی و غیرملکی مندوبین کی علی گڑھ میں مہمان نوازی کی۔ اس کا مقصد صرف مالی امداد حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ علی گڑھ کیمپس کی تہذیبی و سیاسی زندگی کے سلسلے میں پھیلی بدگمانیوں کو دور کرنا تھا۔

ہندوستان کے ان منفرد دانشوروں اور ماہرین تعلیم میں سرفہرست ہیں جنہوں نے بےمثال ذہنی دیانتداری، بےباکی اور بےلوث وطن دوستی کا یادگار نقش چھوڑا ہے۔ دہلی میں قائم کیا گیا ان کا تعلیمی ادارہ "جامعہ ملیہ" ان کی عظمتِ فکر کا جیتا جاگتا مظہر ہے۔ زندگی بھر ان کی یہی کوشش رہی کہ وہ تعلیم کے ذریعہ قومی زندگی میں داخل ہو جانے والی کثافتوں اور خباثتوں کو دور کریں۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کی فکر و عمل اور ان کی بےلوث خدمت گذاری کا اعتراف مہاتما گاندھی، مولانا ابوالکلام آزاد اور پنڈت جواہر لال نہرو جیسے جلیل القدر قائدین نے بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین پہلے نائب صدر جمہوریہ اور بعد میں صدر جمہوریہ ہند کے عہدہ پر فائز رہے اور اسی عہدہ پر رہتے ہوئے ان کا انتقال ہوا۔

ڈاکٹر ذاکر حسین (سابق صدر جمہوریہ ہند) کے چند اقوال زریں:

(1)ہندوستان میں ایک ملا جلا سماج قائم ہے لہذا ایک آزاد ملک کی حیثیت سے قائم رہنے کے لیے بنیادی شرائط یہ ہیں: اس سماج کے عوام کا مشترکہ قومی اور ثقافتی پس منظر ہو، جس کی جڑیں تاریخ میں دور دور تک پھیلی ہوئی ہوں اور اس کے علاوہ مختلف لسانی گروہوں میں رواداری اور پرخلوص جذبہ کارفرما ہو۔

(2)چھوت چھات کا مکمل طور پر خاتمہ کرنا نہایت ضروری ہے۔ ہمارے آئین کی رو سے بلاشبہ چھوت چھات کو غیرقانونی قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود کچھ آثار ابھی تک ہمارے ذہنوں اور روزمرہ کی زندگیوں سے دور نہیں ہوئے ہیں۔

(3)ہمارے کام کا ایک اقتصادی پہلو ہے۔ ہمیں اپنی ضرورتیں خود کم کرنی ہیں تاکہ ہماری حکومت ضرورت کے مطابق صنعتی وسائل کا استعمال کر سکے۔ ہمیں قیمتوں کی سطح برقرار رکھنے اور منافع خوروں کو ان کے مکروہ کاروبار سے باز رکھنے میں مدد کرنی ہے۔

(4)قومی زندگی کا محل کبھی مکمل نہیں ہوتا، یہ ہمیشہ زیرتعمیر رہتا، بڑھتا اور پھیلتا رہتا ہے۔ اس کے وسیع تعمیراتی خاکوں کے اندر تفصیلات کو مستقل طور پر واضح کرتے رہنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے بےشمار عناصر کا بنیادی توازن قائم رکھنا پڑتا ہے کیونکہ ان میں ہر عنصر تمام عناصر پر اثرانداز ہوتا ہے اور ان سے اثر قبول بھی کرتا ہے۔

(5)اگر غلط باتوں کے ازالہ کے لیے خواہ وہ فرضی ہوں یا حقیقی، تشدد کا استعمال بڑھتا رہا تو خود ملک کے اندر ہماری جمہوریت کی قدروں کے منتشر ہونے کا خطرہ پیدا ہوگا۔

 

انتخاب:۔ نوشاد علی ریاض احمد

3 comments:

MUMTAZ JAHAN said...

Bahot khub sir

Ansari Akhlaque Ahmed said...

Good history talking about Dr. Zakir....
Thanks

Ansari Akhlaque Ahmed said...

Bahaut sare school un k name se منصب hain