Happy Teachers Day

 یومِ اساتذہ:

 جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک

ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں

اساتذہ کسی بھی قوم و ملت کا وہ عظیم سرمایہ ہیں جو ہر مشکل, ہر آفت, اور کٹھن سے کٹھن گھڑی میں نسل نو کو نکھارنے اور انہیں صیقل کرنے میں اپنا تن من دھن سب کچھ لٹا دیتے ہیں, ملک و ملت کا روشن مستقبل انہیں کے ہاتھوں پروان چڑھتا ہے اور ترقی کی منزلیں طے کرتا ہے ۔ تاریخ انسانی کے مختلف ادوار میں بہت سے اساتذہ فلاسفہ اور مصلحین   معاشرہ نے جنم لیا جنہوں نے آگے چل کر متعلمین اور علم کے تشنگان کی کھیپ کی کھیپ تیار کیں،انہیں ماہر فن اساتذہ میں استاد سروپلی رادھا کرشنن ہیں جن کی یوم پیدائش پر ہندوستان میں یوم اساتذہ منایا جاتا ہے۔ 

عالمی سطح پر یوم اساتذہ کا انعقاد 5 اکتوبر کو ہوتا ہے۔

ایک اچھا استاد نہ صرف اپنے طالب علموں کو علم کے نور سے منور کرتا ہے بلکہ ان کی تربیت بھی کرتا ہے ۔ انھیں زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کا راستہ بھی دکھاتا ہے۔ میں اُن تمام اساتذہ کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جو صرف پیشہ سمجھ کر نہیں بلکہ نئی نسل کی تعمیر و ترقی کا مقصد ذہن میں رکھ کر اس شعبہ کو اپناتے ہیں۔ 

جبکہ قومی اور ملکی سطح پر اس کا انعقاد 5 ستمبر کو ہوتا ہے یقیناً ہمارے معاشرے کے لئے یہ فخر و افتخار کی بات ہے کہ اپنے محسنوں اور بزرگوں کے تئیں عزت و احترام کے جذبات ابھی بھی زندہ ہیں

سروپلی رادھا کرشنن 

ہندوستان میں یوم اساتذہ 5 ستمبر کو سروپلی رادھا کرشنن کی یوم پیدائش کے موقع پر منایا جاتا ہے، سروپلی رادھا کرشنن (پیدائش 5 ستمبر 1888ء-وفات 17 اپریل 1975ء) ایک کامیاب ہندوستانی سیاست دان، ماہر و باکمال فلسفی اور آزاد ہندوستان کے دوسرے نائب صدر (1952–1965) اور ہندوستان کے دوسرے صدر جمہوریہ بھی تھے۔  (1962–1967)

یوم اساتذہ منانے کا اہم اور بنیادی مقصد سماج میں اساتذہ اور محسنین کے عظیم الشان کردار کو اجاگرکرنا ہے۔

ہر ذی شعور شخص کے دماغ میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ ان کی ہی یوم پیدائش پر  ٹیچر ڈے کیوں منایا جاتا  ہے؟

اس کی ضرورت اور اہم بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ ہندوستان کے نائب صدر اور ہندوستان کے دوسرے صدر جمہوریہ ہونے کے باوجود بھی اپنے آپ کو ایک استاد کہلوانا ہی  پسند کرتے تھے۔اس کی دوسری بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ خود مفکر،مدبر،مجتہد،فلسفی اور ایک مایہ ناز  استاذ تھے۔انھوں نے اپنی عمر کے چالیس سال تعلیم و تعلم کے میدان میں صرف کردیے تھے۔اس درمیان انھیں یہ محسوس ہوا تھا کہ اساتذہ طرح طرح کے مسائل کے درمیان محصور ہونے کے باوجود بھی صبرواستقلال کے اپنی محنت  سے طالب علموں کی شخصیات کو نکھارنے اور ان کے اندر ہنر پیدا کرنے میں ہمہ تن لگے رہتے ہیں۔یہی وجہ تھی کہ صدر جمہوریہ کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد جب ان کے شاگردوں نے  ان کی یوم پیدائش منانے کے لیے ان سے اجازت طلب کی تو انھوں نے ان سے اس کی جگہ یوم اساتذہ مناکر استاذوں کی عزت و احترام  کے لیےکہا۔ ان کا منشا یہی تھا کہ معاشرے کے اندراساتذہ کا مقام ظاہر ہو اور ان کی اہمیت کا اندازہ لوگوں کے دلوں میں ہو۔

ان کے اقوال میں یہ بات ذکر کی جاتی ہے :-

کہ ایک بہترین استاذ وہ ہے جو علم حاصل کرے اور دوسروں کو صیقل کرے،بلاشبہ استاد کی مثال ایک شمع کی طرح ہے جو خود تو پگھل جاتی ہے لیکن دوسروں کو روشنی دیتی ہے۔ 

یوم اساتذہ مناتے ہوئے ہمیں یہ ضرور خیال کرنا ہے کہ کیا ہماری تعلیم اسی روش پر قائم ہے جس پر ہمارے اسلاف چھوڑ کر گئے تھے کیا ہمارے اساتذہ ویسے ہی جذبات اپنے طالب علموں کے تئیں رکھتے ہیں جیسے کے رادھا کرشنن کے تھے افسوس ہے کہ آج کی تعلیم اخلاق سے عاری ہے وہ صرف اور ہنر سکھاتی ہے اخلاق نہیں جس کی وجہ سے لوگ مادیت کے پجاری اور مے نوشی کے پرستار بن جاتے ہیں,  جو تعلیم انسانیت کو چھوڑ کر مادیت کا پجاری بنا دے تو کیا اس تعلیم کی کوئی اہمیت معاشرہ میں رہ جاتی ہے. کیا یہی یوم اساتذہ کا مقصد ہے؟ ایک بار سوچئے گا ضرور۔۔۔۔۔۔