Urdu Ke Kuch Judwan Alfaz

 انتخاب:

اُردو کے کچھ جُڑواں الفاظ

دیگر زبانوں کی طرح اُردو میں بھی بہت سے ہم شکل، ہم صوت اور جڑواں الفاظ ہیں جو قاری کو مخمصوں میں ڈالے رکھتے ہیں۔ ان کی مشابہ اَشکال قاری کے لیے اِشکال کاموجب ہیں ۔ چند الفاظ کے بارے میں معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں

~       سرِ وَرَق ،        سر وَرَق :

سرِ ورق کا مطلب کسی بھی صفحہ کی اوپر والی یا پہلی سطر ہے ۔ اس کے بر عکس ’’سر وَرَق‘‘ کسی کتاب کا پہلا صفحہ یا ٹائیٹل ہوتا ہے ۔

~      سَیر     ،        سِیر      ،        سِیَر :

عموماََ گھومنا پھرنا سَیر ہے ۔ آسودہ حالی بھی اسی معنی میں ہے، مثلاََ سَیر ہوکر کھانا کھانا وغیرہ۔ سِیر وزن کا پیمانہ ہے جبکہ فارسی میں لہسن کو بھی سِیر کہتے ہیں۔ سِیَر سیرت کی جمع ہے جیسے سِیَر صحابہ وغیرہ۔

~       لاش     ،        نعش :

دونوں کا مطلب "مردہ جسم" ہے۔ لاش فارسی اور اردو میں مستعمل ہے، جبکہ نعش عربی کا لفظ ہے۔ سات ستاروں کے جھرمٹ جن میں تین ستارے نعش کی مانند اور چار جنازہ اٹھانے والے نظر آتے ہیں کو بَنات النعش کہتے ہیں۔

بَنات ،بنت کی جمع بمعنی بیٹیاں ہیں جو ایک جنازہ اٹھائے نظر آتی ہیں۔ اسے دب اکبر اور عقد ثریا بھی کہتے ہیں۔ اب یہاں کسی اکبر اور ثریا کے عقد کا مغالطہ پالنا مناسب نہ ہوگا ۔

~       گُل      ،       گِل      ،       گَل :

سب جانتے ہیں کہ گُل کا مطلب پھول ہے اور یہ فارسی کا لفظ ہے، تاہم گُل کا ایک معنی چراغ کا بجھانا بھی ہے۔ اس کے علاوہ چراغ اور سگریٹ وغیرہ کا جلا ہوا سرا بھی گُل کہلاتا ہے۔ دلدل ،گارا ،کیچڑ اورنرم گیلی مٹی کو گِل کہتے ہیں۔ آب وگِل سے مراد گندھی ہوئی مٹی (قالب انسانی ) ہے۔ بقول علامہ اقبال:

؎          اے پیکرِ گِل کوششِ پیہم کی جزا دیکھ

     نالندہ تیرے عُود کا ہر تار ازل سے

مٹی کی لپائی کرنے والے اوزار کو اسی نسبت سے "گِل مالہ" کہتے تھے جو بگڑ کر "گڑمالہ" ہو چکا ہے۔

اسی طرح گَل  سنسکرت کا لفظ ہے جس کے معنیٰ برباد ہونا، گل سڑ جانا، بوسیدہ ہونا کے ہیں۔ گَل، "گالی" ، "گال" اور "گلے" کے مخفف کے طور پر بھی مستعمل ہے۔

~      حاجی   ،        ہاجی :

مخصوص ایام میں بیت اللہ کی زیارت اور مناسک ادا کرنے والا حاجی ہے۔ یہ ہائے حُطی سے لکھا جاتا ہے۔ ایک ضرب المثل ہے، "من ترا حاجی بگویم تو مرا ملا بگو"، ہائے ہوَز سے لکھا جانے والے "ہاجی" کا معنی ہَجو لکھنے اور کہنے والا ہے۔ میر تقی میر اپنے کسی حریف کا تیا پائنچہ یوں کرتے ہیں ۔

؎         قبلہ کہتے کہتے ہاجی ہوگیا

   پاسِ ظاہر چھوڑ پاجی ہوگیا

علاوہ ازیں الفاظ کے ہجے کرنے والا بھی ہاجی کہلاتا ہے۔

~      سَحَر     ،        سِحر :

صبح کو سَحَر کہتے ہیں اور سِحر کے معانی جادو کے ہیں۔

~       اِعراب         ،        اَعراب :

الفاظ کے تلفظ کی وضاحت کے لیے استعمال ہونے والی حرکات "زیر، زبر، پیش" کو اِعراب جبکہ عرب کے باشندوں کو اَعراب کہتے ہیں-

~       بندر     ،        بندر    ،        بندر گاہ :

بندر فارسی الاصل لفظ ہے اورعربی میں ایک دخیل لفظ کے طور پر مستعمل ہے۔ اس کا استعمال ترکی زبان میں بھی پایا جاتا ہے، مگر تارید و تہنید کی مسافت میں چارلس ڈارون کی روح پھڑ پھڑائی اور یہ بے چارا اردو میں آتے آتے monkey کی شکل اختیار کر گیا، حالانکہ فارسی میں اس کا مطلب سمندر کے کنارے واقع تجارتی مرکز یا منڈی کا ہے۔ ایسا مرکز جس سے روزگار وابستہ ہو۔ دور جدید میں یہی sea port ہے۔ اب جب بندر ہی سمندری اڈے کے لیے کافی تو اس کو بندرگاہ کیوں کہتے ہیں اور بندر گاہ میں بندر کیونکر آیا۔ فارسی میں "گاہ" کا مطلب جگہ یا مقام ہے۔

سمندری اڈے کے لیے "بندر" کا لفظ کافی ہے، مگر گاہ کا لفظ خواہ مخواہ ہی مستعمل ہوگیا اور اب اس اصطلاح کا جزوِ لا ینفک ہے۔ اکیلا "بندر" کہیں تو "مذکر" ہو گا جبکہ بندر گاہ مونث ہے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ عربی میں بندر کے معنی قابلِ اعتماد، ذمہ دار اور منظم کے ہیں اور عرب کے لوگ بچوں کا نام "بندر" شوق سے رکھتے ہیں۔

ایک مشہور سعودی سفارت کار کا نام "بندر بن سلطان" تھا۔ قدیم عربی میں میخ ٹھونکنے والی ہتھوڑی کو بھی بندر کہا جاتا تھا۔ یاد رہے کہ عربی میں "بندر نامی جانور" کو ’’ قرد‘‘ کہتے ہیں۔

~       مُلک     ،        مِلک     ،        مَلَک     ،        مَلِک :

ریاست و سلطنت کو مُلک (جمع ممالک) اور ملکیت کو مِلک کہا جاتا ہے ۔ مَلَک فرشتے کو کہتے ہیں جس کی جمع ملائکہ ہے جبکہ مَلِک (جمع ملوک) کا معنی سردار یا چیف ہے۔

~       مُسلِم   ،        مُسلَّم   :

اسلام قبول کرکے اس کے مطابق زندگی گزارنے والا مُسلِم یعنی مسلمان ہے۔

؎         ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

    نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

جبکہ مُسلَّم   بر وزن مکمل کا مطلب سالم، پورا تسلیم شدہ کا ہے۔ مُسلَّم بمعنی مکمل کے متعلق اک شعر ملاحظہ ہو،

؎         میں جو کھا لیتا ہوں دو مرغ مُسلَّم ہر روز

     وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

~      عنبر    ،        امبر :

عنبر ایک قیمتی خوشبودار مادہ ہے جو سمندروں سے حاصل ہوتا ہے۔ کچھ ماہرین اسے عنبر نامی اور کچھ اسے وہیل مچھلی کا فضلہ یا قے ثابت کرتے ہیں۔ اصل میں یہ مخصوص مچھلی جب ایک خاص قسم کی سمندری جڑی بوٹی کھائے اور بد ہضمی سے قے یا فضلہ کرے تو یہ مادہ سمندر کی تہہ پر آجاتا ہے، اس سے نہایت قیمتی خوشبو تیار ہوتی ہے اور مقوی ادویات میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس کا ایک کلو لاکھوں روپے کا ہوتا ہے۔

دوسرا ہندی کا لفظ امبر بمعنی آسمان ہیں۔ جیسے مشہور گانے "نیلے نیلے امبر پہ چاند جب آئے" میں مذکور ہے۔

~       عُود      ،        عَود :

عُود ایک خوشبودار درخت ہے اور اس کی خوشبو کو بھی عُود کہتے ہیں۔ ’’عُود ِ ہندی‘‘ غالب کے خطوط پر مبنی کتا ب کا نام بھی ہے۔ عُود کی لکڑی کو خوشبو کی غرض سے جلایا جاتا ہے۔ تبھی تو قتیل شفائی کو بڑی دور کی سوجھی کہ :

  ؎          برنگِ عُود ملے گی اسے میری خوشبو  

        وہ جب بھی چاہے بڑے شوق سے جلائے مجھے

اس کے برعکس "عَود" کا مطلب واپس آنا، لَوٹنا، پلٹنا اور دوبارہ رواج پانا ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی بات حافظے میں عَود آئی ہے یا کوئی بیماری عَود کر آگئی ہے۔

ہم شکل الفاظ پر کلک کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔👇

 ہم شکل الفاظ:


شکریہ۔۔۔آپ کے کمنٹس کا انتظار۔۔۔۔۔۔

#Urdu Ke Kuch Judwan Alfaz

AreeB TLM


2 comments:

ALIKAUSER said...

Kya bat hai..... Wow

KNOWLEDGE OCEAN said...

ماشاء اللہ کتنی کار آمد اور مفید چیزوں کا ذکر کیا ہے اور عنوانات کے تحت دلچسپ گفتگو نے مزہ دو بالہ کر دیا۔شاد باش