Hasas Fitrat

 حساس فطرت:

ایک بار سابق انڈین الیکشن کمشنر شری ٹی این سیشان، اتر پردیش کے دورے پر روانہ ہوئے تو ان کے ہمراہ ان کی اہلیہ بھی تھیں۔

راستے میں، وہ ایک باغ کے قریب رُک گئے۔ باغ کے درختوں پر پرندوں کے بیشمار گھونسلے تھے۔ ان کی اہلیہ نے خواہش ظاہر کی کہ باغ کے کسی درخت سے کوئی گھونسلا لیتے چلیں، تاکہ میں انہیں گھر میں سجاؤں.

سیشان جی نے اپنے ساتھ موجود پولیس اہلکاروں سے کوئی گھونسلہ اٹھا کر لانے کو کہا۔

پولیس والوں نے ایک لڑکے سے جو قریب ہی ایک گائے چرا رہا تھا، دس روپے دیتے ہوئے کوئی ایک گھونسلہ درخت پر سے لانے کے کو کہا ، لیکن وہ لڑکا گھونسلہ لانے کے لئے تیار نہیں ہوا۔

ٹی این سیشان نے پولیس والوں سے اس لڑکے کو دس کے بجائے پچاس روپے دینے کو کہا، پھر بھی لڑکا تیار نہیں ہوا۔

لڑکے نے سیشان سے کہا: "جناب! گھونسلے میں پرندوں کے بچے ہیں، جب پرندے شام کو کھانا لیکر لوٹیں گے تو ، انھیں اپنے بچوں کو نہ دیکھ کر بہت دکھ ہوگا.

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ مجھے اس کام کے لیے کتنا معاوضہ دیتے ہیں۔ میں کسی گھونسلے کو توڑ کر نہیں لا سکتا۔"

اس واقعے کا ٹی این سیشان کو زندگی بھر افسوس رہا کہ ایک چرواہا بچہ ایسی سوچ کا حامل بھی ہو سکتا ہے اور اپنے اندر بڑی حساسیت رکھتا ہے جبکہ میں اتنا تعلیم یافتہ اور آئی اے ایس ہونے کے بعد بھی اس بچے جیسی سوچ اور احساس اپنے اندر پیدا نہیں کرسکا.

وہ ہمیشہ ہی رنجیدہ رہے کہ ان میں وہ حساس فطرت کیوں پیدا نہیں ہوئی؟ تعلیم کس نے حاصل کی؟ میں نے یا اس بچے نے؟

انہیں شدت سے احساس رہا کہ اس چھوٹے لڑکے کے سامنے ان کا مؤقف اور آئی اے ایس ہونا بالکل ہیچ ہے۔

گویا ان کا قد اس بچے کے سامنے سرسوں کے دانے کی مانند گھٹ گیا ہے۔

تعلیم ، سماجی مقام اور معاشرتی حیثیت، انسانیت کا معیار نہیں ہے۔ محض بہت سی معلومات جمع کرنے کو علم نہیں کہا جاسکتا! زندگی تبھی خوشگوار ہے جب آپ کی تعلیم: انسانیت کے تئیں حکمت، شفقت اور ذہانت کا پتہ دیتی ہو !!

ماخوذ



CHATTAN (Story)

 آج ہم ایک کہانی پڑھیں گے جو یقیناً غور وفکر اور دعوتِ عمل دے گی۔۔۔۔

کہتے ہیں کہ ایک بار چین کے کسی حاکم نے ایک بڑی گزرگاہ کے بیچوں بیچ ایک چٹانی پتھر ایسے رکھوا دیا کہ گزرگاہ بند ہو کر رہ گئی۔  اپنے ایک پہریدار کو نزدیک ہی ایک درخت کے پیچھےچھپا کر بٹھا دیا تاکہ وہ آتے جاتے لوگوں کے ردِ عمل سُنے اور اُسے آگاہ کرے۔

اتفاق سے جس پہلے شخص کا وہاں سے گزر ہوا وہ شہر کا مشہور تاجر تھا جس نے بہت ہی نفرت اور حقارت سے سڑک کے بیچوں بیچ رکھی اس چٹان کو دیکھا۔۔۔۔۔۔

وہ جانے بغیر کہ یہ چٹان تو حاکم وقت نے ہی رکھوائی تھی اُس نے ہر اُس شخص کو بے نقط اور بے حساب باتیں سنائیں جو اس حرکت کا ذمہ دار ہو سکتا تھا۔ چٹان کے ارد گرد ایک دو چکر لگائے اور چیختے ڈھاڑتے ہوئے کہا کہ وہ ابھی جا کر اعلیٰ حکام سے اس حرکت کی شکایت کرے گا اور جو کوئی بھی اس حرکت کا ذمہ دار ہوگا اُسے سزا دلوائے بغیر آرام سے نہیں بیٹھے گا۔

اس کے بعد وہاں سے تعمیراتی کام کرنے والے ایک ٹھیکیدار کا گزر ہوا ۔ اُس کا ردِ عمل بھی اُس سے پہلے گزرنے والے تاجر سے مختلف تو نہیں تھا مگر اُس کی باتوں میں ویسی شدت اور گھن گرج نہیں تھی جیسی پہلے والا تاجر دکھا کر گیا تھا۔ آخر ان دونوں کی حیثیت اور مرتبے میں نمایاں فرق بھی توتھا!!!!

اس کے بعد وہاں سے تین ایسے دوستوں کا گزر ہوا جو ابھی تک زندگی میں اپنی ذاتی پہچان نہیں بنا پائے تھے اور کام کاج کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے۔ انہوں نے چٹان کے پاس رُک کر سڑک کے بیچوں بیچ ایسی حرکت کرنے والے کو جاہل، بیہودہ اور گھٹیا انسان سے تشبیہ دی، قہقہے لگاتے اور ہنستے ہوئے اپنے گھروں کو چل دیئے۔

اس چٹان کو سڑک پر رکھے دو دن گزر گئے تھے کہ وہاں سے ایک مفلوک الحال اور غریب کسان کا گزر ہوا۔ کوئی شکوہ کیئے بغیر جو بات اُس کے دل میں آئی وہ وہاں سے گزرنے ولوں کی تکلیف کا احساس تھا اور وہ یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح یہ پتھر وہاں سے ہٹا دیا جائے۔ اُس نے وہاں سے گزرنے والے راہگیروں کو دوسرے لوگوں کی مشکلات سے آگاہ کیا اور انہیں جمع ہو کر وہاں سے پتھر ہٹوانے کیلئے مدد کی درخواست کی۔ اور بہت سے لوگوں نے مل کر زور لگاکرچٹان نما پتھر وہاں سے ہٹا دیا۔

اور جیسے ہی یہ چٹان وہاں سے ہٹی تو نیچے سے ایک چھوٹا سا گڑھا دکھائی دیا   ۔ اُس میں رکھی ہوئی ایک صندوقچی نظر آئی جسے کسان نے کھول کر دیکھا تو اُس میں سونے کا ایک ٹکڑا اور خط رکھا تھا جس میں لکھا ہوا تھا کہ:

’’حاکم وقت کی طرف سے اس چٹان کو سڑک کے درمیان سے ہٹانے والے شخص کے نام۔ جس کی مثبت اور عملی سوچ نے مسائل پر شکایت کرنے کی بجائے اُس کا حل نکالنا زیادہ بہتر جانا۔‘‘

آپ بھی اپنے گردو نواح میں نظر دوڑا کر دیکھ لیں۔ کتنے ایسے مسائل ہیں جن کے حل ہم آسانی سے پیدا کر سکتے ہیں!لیکن ہم سیاست دانوں اور اعلی حکام کو گالی گلوچ کے ساتھ کوستے رہتے ہیں. جبکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ گالی گلوچ مسائل کا حل ہرگز نہیں۔۔۔۔

اگر ہم وه معاشرتی مسائل جن کا حل ہمارے اختیار میں ہے ۔۔۔ وه کرنےسے ممکن ہے کہ کوئی سونے سے بھری تھیلی تو ہمیں نہ ملے.مگر یہ یقینی بات ہے کہ اس عمل سے نیکیوں کی ایک بڑی تھیلی ہمارے نامہ اعمال میں رکھ دی جائے۔۔۔۔

 

تو شکوہ و شکایتیں بند، اور شروع کریں ایسے مسائل کو حل کرنا۔۔۔۔

 

منقول



 

Samundari Toofan

آج ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ۔۔۔۔۔۔۔ سمندری طو فانوں کے نام کون رکھتا ہے؟

بشکریہ: VOA


بحیرۂ عرب میں بننے والا سمندری طوفان 'تاؤتے' بھارت کی ریاست گجرات کے ساحلی علاقوں سے پیر کی شب ٹکرا گیا ہے جس کے بعد وہاں تباہی کے مناظر ہیں۔ بھارت کی مغربی ریاستوں میں اس طوفان کے سبب اب تک ایک درجن سے زائد افراد بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔


ماہرین ’تاؤتے‘ کو گزشتہ 20 برسوں میں آنے والا سب سے طاقتور طوفان قرار دے رہے ہیں۔


ماضی میں بھی بحیرۂ عرب اور بحرِ ہند میں اس طرح کے طوفان بنتے رہے ہیں اور انہیں باقاعدہ کوئی نہ کوئی نام دیا جاتا رہا ہے۔


اس مرتبہ جنوب مشرقی ایشیائی ملک میانمار نے اس طوفان کا نام 'تاؤتے' تجویز کیا تھا۔ سمندر میں طوفان بننے کے بعد میانمار کی باری تھی کہ وہ سائیکلون کا نام دے گا۔


سمندری طوفانوں کے نام کس طرح رکھے جاتے ہیں؟


سمندری طوفانوں کے نام رکھنے کے حوالے سے جنوبی ایشیائی ممالک کا ایک پینل ہے جسے پینل اینڈ ٹروپیکل سائیکلون (پی ٹی سی) کہا جاتا ہے۔


اس پینل میں ابتدائی طور پر سات ممالک تھے جن کی تعداد بڑھ کر اب 13 ہو گئی ہے جن میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، میانمار، تھائی لینڈ، مالدیپ، سری لنکا، عمان، ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔

سن 2004 سے قبل طوفان کے اس طرح کے ناموں کی کوئی روایت نہیں تھی جس طرح آج ان کے نام رکھے جاتے ہیں۔ ماضی میں سمندری طوفانوں کو ان کے نمبر سے یاد رکھا جاتا تھا۔

سن 1999 میں ایک سائیکلون پاکستان کے شہر بدین اور ٹھٹھہ سے ٹکرایا تھا، تب اس کا نام Zero 2-A تھا جو اس سیزن کا بحیرۂ عرب کا دوسرا طوفان تھا۔

بعد ازاں 'پی ٹی سی' میں تمام ممالک کے محکمۂ موسمیات کے درمیان یہ طے پایا کہ طوفانوں کے ایسے نام ہونے چاہئیں جو یاد رکھنے میں آسان ہوں، ادا کرنے میں سہل ہوں۔

پی ٹی سی کے رکن ممالک کے درمیان یہ بھی طے پایا کہ ہر ملک باری باری سمندری طوفان کو ایک ایک نام دے گا۔ اس طرح 2004 میں ایک فہرست بنائی گئی جو 2020 تک رہی اور اس میں طوفانوں کے جو نام تجویز کیے گئے ان تمام کو استعمال کیا گیا۔

پاکستان نے اس فہرست میں جن طوفانوں کے نام تجویز کیے تھے ان میں فانوس، نرگس، لیلیٰ، نیلم، نیلوفر، وردہ، تتلی اور بلبل شامل ہیں۔

سن 2020 میں اس فہرست کا مجوزہ آخری نام 'ایمفن' تھا۔ یہ طوفان خلیجِ بنگال میں بنا تھا اور اس کا رخ بھارت کی جانب تھا بعد ازاں پی ٹی سی کے تمام 13 رکن ملکوں نے گزشتہ برس طوفانوں کے ناموں کی ایک نئی فہرست ترتیب دی تھی۔


یاد رہے کہ طوفانوں کے نام رکھنے کے لیے پی ٹی سی میں شامل رکن ملکوں کے انگریزی حروفِ تہجی کی ترتیب سے ان ملکوں کی باری آتی ہے۔ مثلاً 2020 میں بننے والی نئی فہرست کا سب سے پہلا نام بنگلہ دیش کا تجویز کردہ رکھا گیا جو 'نسارگا' تھا۔

بعدازاں بھارت، ایران اور مالدیپ کے ناموں کا نمبر آیا۔ اب میانمار کی باری تھی تو حالیہ طوفان کا نام 'تاؤتے' اسی کا تجویز کردہ ہے۔

اگر مستقبل میں کوئی طوفان آتا ہے تو عمان کا تجویز کردہ نام 'یاس' رکھا جائے گا جس کے بعد پاکستان کے مجوزہ نام 'گلاب' کا نمبر آئے گا۔

انتخاب..



PARACHUTE

  •  آج ہم پیراسوٹ کے بارے میں جانتے ہیں کہ یہ کیسے کام کرتا ہے؟ 
  • اس میں کن کن چیزوں کا استعمال کیا جاتا ہے؟
  • ان کے نام کیا ہوتے ہیں؟
  • سائنسی نقطہ نظر سے کس طرح سے کام کرتا ہے؟

پیراشوٹ میں سب سے اوپر کی طرف ایک چھتری ہوتی ہے، جس میں ڈوری باندھ کر ایک تھیلی لٹکا دی جاتی ہے۔ چھتری میں پیٹی جیسی شے بھی ہوتی ہے جسے "رپ کارڈ" کہا جاتا ہے۔ اس رپ کارڈ کو کھولنے سے چھتری کھل جاتی ہے۔ جسے بھی ہوا میں چھلانگ لگانی ہو اسے چند لمحوں میں 'رپ کارڈ' کھولنا پڑتا ہے۔ رپ کارڈ کو کھینچنے کے فورا بعد ہی پیراشوٹ میں ہوا بھر جاتی ہے اور وہ ہوا میں تیرنا شروع کردیتا ہے۔ چھتری کے ساتھ جو ڈوری ہوتی ہے، اسے کھینچ کر جس سمت میں جانا ہو اس طرف موڑا جاسکتا ہے۔ ایک بار پیراشوٹ کُھلنے کے بعد، جیسے جیسے وہ نیچے آتا ہے، اس کی رفتار پانچ میٹر فی سیکنڈ تک بڑھتی جاتی ہے۔ اگر پیراشوٹ کھولنے میں تھوڑی سے بھی غلطی ہو جائے تو ، چھتری نہیں کھل پاتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پیرا شوٹ پہننے والا شخص ایک پتھر کی مانند تیزی سے نیچے گر جاتا ہے او ر یہ بہت ہی خطرناک حالت ہوتی ہے ۔ اس میں جان بھی جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔

پیراشوٹ سے چھلانگ لگانے کے تجربات سترہویں صدی میں شروع ہوئے۔ ابتدا میں ، بلیوں اور کتوں کو مختلف اونچائیوں سے پیراشوٹ  میں رکھ کر زمین پر اتارنے  کےتجربات انجام دیے جاتے تھے۔ انسان نے انیسویں صدی میں پیراشوٹ کو استعمال کرنا سیکھ لیا تھا۔ اس کے ذریعے اس نے زمین پر اترنے کے فن میں مہارت حاصل کرلی تھی۔ انسان نے اڑتے ہوئے ہوائی جہاز سے پیراشوٹ باندھ کر چھلانگ لگانے کے فن میں بھی مہارت حاصل کرلی تھی۔

شروع میں، پیراشوٹ کو سوتی یا لینن نامی کپڑے سے بنایا جاتا تھا۔ اس کے بعد نائلون کے پیراشوٹ بننے لگے۔ اس کے علاوہ کینوس کے موٹے کپڑے کی جگہ نرم ریشمی کپڑا بھی استعمال کیا جانے لگا تاکہ اس کے وزن کو کم کیا جاسکے۔

 پیراشوٹ میں سائنس کا کون سا اصول کار فرماہوتا ہے؟

  پیراشوٹ میں دو قوتیں کام کرتی ہیں، ’کشش ثقل ‘    اور ’ہوا کی رگڑ‘۔ جب کوئی چیز اونچائی سے گرتی ہے تو، زمین کی کشش ثقل اسے نیچے کی طرف کھینچتی ہے، جب کہ ہوا کی رگڑ کے باعث اس چیز کے نیچے گرنے کی رفتار کم ہوجاتی ہے۔ شے جتنی وسیع ہوگی، ہوا کی قوت رگڑ اتنی ہی زیادہ لگے گی۔

پیراشوٹ میں ہوا کے تئیں مزاحمت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ نیچے گرنے کے بجائے ہوا میں تیرنے لگتا ہے۔ کشش ثقل کی قوت شے کو زمین کی طرف کھینچتی ہے اور ہوا کی قوت رگڑ زمین پر گرتی ہوئی شے کو ہوا میں تیرنے کی حالت میں بنائے رکھتی ہے۔ لہٰذا پیراشوٹ آہستہ آہستہ نیچے آتا ہے۔

کچھ اور بھی سنو، کسی پیراشوٹ کی تشکیل اس شے کے سائز اور وزن کے مکمل حساب کے بعد ہی کی جاتی ہے۔ بھاری اشیا کے لیے استعمال کیے جانے والے پیراشوٹ موٹے کپڑے سے بنے ہوتے ہیں اور اس کا گھیرا بھی زیادہ رکھا جاتا ہے۔

جنگی طیاروں سے فوجیوں کو اتارنے کے لیے چھوٹے پیراشوٹ بنائے جاتے ہیں، جو وزن کے اعتبار سے ہلکے ہوتے ہیں۔ اس قسم کے چھوٹے پیراشوٹ سے نیچے اترنے والے اور ہوا میں کرتب دکھانے والے لوگوں کو کہیں بھی اترنے اور اپنا توازن قائم رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

پیراشوٹ کی مدد سے زمین پر اترنا بھی ایک فن ہے۔ اگر اس میں معمولی سی بھی غلطی ہوجائے تو حادثہ پیش آنے کا امکان رہتا ہے۔

ایک پیراشوٹ کی قیمت تقریباً سوالاکھ روپے ہوتی ہے۔


منقول
اب یورپی ممالک میں پیراسوٹ ایک تفریح کا ذریعہ بھی بن گیا ہے۔ جس میں آپ پہاڑی علاقے سے گائیڈ کے ساتھ کود کر آپس پاس کے قدرتی مناظر سے لُطف اندو ز ہو سکتے ہیں۔ یقیناً آپ اس کے ساتھ تفریح کرنا چاہو گے!!!
AreeB TLM