ساوتری بائی پھلے : عظیم شخصیت۔۔
پہلی
مسلمان استاد فاطمہ شیخ تھیں۔
آج تک وہ
لوگ دنیا میں بہت مقبول ہو چکے ہیں۔ جنہوں نے اپنی زندگی میں ایسے کام کیے ہیں جن
سے پوری انسانیت کو بہت فائدہ پہنچا ہے۔ ان کےکام واقعی قابل تعریف ہیں۔ ان کے
کارناموں کی وجہ سے دنیا انہیں ابھی تک نہیں
بھولی اور انہیں ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔جس میں چھترپتی شیواجی مہاراج، ایم گاندھی،
ڈاکٹرباباصاحب امبیڈکر، پنڈت جواہر لعل نہرو، مولانا عبدالکلام آزاد، سر سید احمد
خان اور ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نمایاں شخصیات میں سے ہیں۔جنہیں ہم وقتاً فوقتاً
یاد کرتے رہتے ہیں۔ان تمام عظیم انسانوں میں صرف مرد ہیں۔ ملک کی ترقی میں، ملک کے
انقلاب میں خواتین کا بھی اتنا ہی حصہ اور گراں قدر حصہ ہے جتنا کہ مردوں کا۔جس
طرح مردوں کا سماج میں حصہ ہے اتنا ہی خواتین کا ہے اسی طرح معاشرے کی بہتری، ان کی
فلاح و بہبود میں ان کا بھی بہت بڑا اور انمول حصہ ہے۔ اور انہوں نے وقت گزرنے کے
ساتھ ساتھ اپنی دانشمندی، ذہانت اور معیار کو ثابت کیا ہے۔ جس میں قوم کی ماں جیجاؤ،
کرانتی جیوتی ساوتری بائی پھولے، کلپنا چاولہ، جھانسی کی ملکہ لکشمی بائی، ڈاکٹر
آنندی بائی جوشی، سینٹ مدر ٹریسا، پدم شری سندھوتائی سپکل، رانی رضیہ سلطانہ، بیگم
حضرت محل اور فاطمہ شیخ کے نام سرفہرست ہیں۔
ساوتری بائی
پھولے، ہندوستان کی پہلی ٹیچر، پہلی ہیڈ مسٹریس، سماجی کارکن، کرانتی جیوتی گیان جیوتی
ساوتری بائی پھولے کا یوم پیدائش۳
جنوری ۱۸۳۱ء ہے۔ جنہوں نے حقوق نسواں اور خواتین کی تعلیم
کے لیے انمول خدمات سرانجام دی ہیں۔ وہ بہت مقبول شاعرہ بھی تھیں۔
جنہوں نے
اس کے مقدس ترین اور سماجی طور پر مفید اور تعمیری کام میں اس کی مدد کی۔ فاطمہ شیخ
کے بھائی عثمان شیخ نے بھی اپنا نام ساوتری بائی پھولے اور مہاتما پھولے کو اسکول
کے لیے دیا۔ ایک ایسے وقت میں جب سماج ساوتری بائی پھولے اور مہاتما پھولے کی تعلیم
کے خلاف تھا۔
اس وقت
فاطمہ شیخ اور عثمان شیخ دونوں بھائی بہنیں علم کی فراہمی کے کام کے ساتھ ساتھ ہر
سطح پر حتیٰ کہ ہر سطح پر ان کی مدد اور تعاون کرتے رہے ہیں۔ اور ساوتری بائی، جیوتیبہ،
عثمان شیخ اور فاطمہ شیخ کی فعال شرکت اور انمول شراکت کے ساتھ ہندوستان میں لڑکیوں
کا پہلا اسکول شروع کیا۔
اس کے ساتھ
ساتھ ان کی قریبی دوست فاطمہ شیخ خواتین اور بچیوں کو علم سکھا کر انہیں تعلیم دیتی
تھیں اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پہلی مسلمان خاتون استاد فاطمہ شیخ تھیں۔
انہوں نے
ساوتری بائی پھولے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر خواتین کی تعلیم میں اہم کردار
ادا کیا ہے۔ لیکن افسوس اور المیہ یہ ہے کہ آج ہم صرف جان جیوتی کرانتی جیوتی
ساوتری بائی پھولے کو جانتے ہیں۔ درحقیقت، یہ اتنا ہی ضروری ہے کہ ہم ساوتری بائی
پھولے کے ساتھ مل کر فاطمہ شیخ کا نام لیں، ان کی عزت کریں، ان سے اظہار تشکر کریں،
اور ان کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کریں۔
ان کی
شراکت کا فیصلہ کیا جائے گا۔ کیونکہ اگر انہوں نے خواتین کی تعلیم کے لیے حقیقتاً
کچھ نہ کیا ہوتا، ان کی شراکت کے بغیر، خواتین کی تعلیم میں ان کے حصہ کے بغیر، ان
کی شراکت کے بغیر، ان کا نام تاریخ میں ساوتری بائی پھولے کے ساتھ کبھی درج نہ
ہوتا۔ لیکن آج کے دور کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جب بھی ساوتری بائی پھولے کا
خواتین کی تعلیم کا ذکر آتا ہے تو وہ فاطمہ شیخ کا عکس ہوتا ہے۔
پھولے کی
تصویر بہت کھوکھلی اور پھیکی لگتی ہے۔ ہمیں بس اپنی سوچ بدلنی ہے اور فاطمہ شیخ کے
ساتھ مل کر جان جیوتی ساوتری بائی پھولے کے ساتھ مل کر تاریخ کی دھول جھاڑ کر اسے
آج کے نصاب کے آئینے میں دکھانا ہے۔
اکہ فاطمہ
شیخ اور ان کے بھائی عثمان شیخ کو ان کے حقوق اور حقوق ملیں، ان کے ساتھ ان کے
اعمال اور قربانیوں کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ ہم ان دونوں کی محنت اور قربانی سے
کبھی انکار نہیں کر سکتے، جس طرح تمام عظیم انسانوں کا تاریخ میں ایک اہم مقام ہے،
اسی طرح یہ دونوں فاطمہ شیخ اور عثمان شیخ بھی بہت بلند مقام کے مستحق ہیں۔
ان کی تاریخ
بھی سنہری حروف سے لکھی جانی چاہیے۔ یہ ہماری ذمہ داری اور فرض ہے کہ ہم انہیں ایک
منفرد عمومی اہمیت دیں اور ان کے شاندار اور نمایاں کارناموں کو تاریخ میں درج کریں۔
کیونکہ ہماری قوم ایک ایسی قوم ہے جو تنوع کے ذریعے اتحاد کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اور یہاں
ہمارا پختہ یقین ہے کہ ہر انسان کو معاشرے کے ہر عنصر کے لیے انصاف ملتا ہے۔
Good
ReplyDeleteبہت خوب ✅👍
ReplyDeleteBahut hi khoob....aagay Qadam badhate raho...
ReplyDeleteVery nice ⭐⭐⭐⭐⭐
ReplyDeleteبہتر
ReplyDeleteBahut khoob 👍👍👌👌 malumat me azafa hua padh kr 👍👍
ReplyDeleteبہت ہی معلوماتی 👍👍👍
ReplyDeleteBahot Achchi Maloomat Navshad bhai.Keep it up
ReplyDeleteبہترین معلومات فراہم کرنے کا شکریہ
ReplyDeleteبہت عمدہ معلومات
ReplyDelete