ہمارا
بھی ایک زمانہ تھا :
پانچویں جماعت تک ہم سلیٹ پر جو بھی لکھتے تھے اسے زبان سے چاٹ کر صاف کرتے تھے ، یوں کیلشیم کو دور کرنے کی ہماری
گویا پیدایشی عادت
تھی ۔۔ ۔۔
پاس
یا ناپاس ۔( fail) ہمیں صرف یہی معلوم تھا ، کیونکہ فیصد۔ ( percentage )سے ہم لا تعلق تھے
ٹیوشن
۔( tuition ) شرم ناک
بات تھی ، کیونکہ کند ذہن بچوں کے لئے اضافی توجہ یعنی کہ ٹیوشن یہی عام طور پر
رائج رہا۔
کتابوں
میں پھولوں کی پنکھڑی , یا مور کا پنکھ رکھنے سے ہم ذہین ہوشیار ہو جائنگے ، یہ ہمارا اعتقاد بھروسہ تھا۔
کپڑے
کی تھیلی میں کتابیں اور بیاضیں سلیقہ سے رکھنا ہمارے سگھڑ پن اور با صلاحیت ہونے
کا ثبوت تھا۔
ہر
سال نئی جماعت کے کتابیں ، بیاضیں پر کور (cover)چڑھانا جیسے
سالانہ تقریب ہوا کرتی تھی۔
والدین ہمارے تعلیم کے تئیں زیادہ فکرمند نہ ہوا کرتے تھے ، اور نہ ہی ہماری تعلیم ان پر کوئی بوجھ تھی ، سالہاسال ہمارے
والدین ہمارے اسکول کی طرف رخ بھی نہیں کیا کرتے تھے، کیونکہ
ہم میں ذہانت(talent )جو تھی۔
ایک دوست کے سائیکل کی سیٹ کے آگے تو دوسرا پیچھے کیریئر پر بیٹھ کر ہم نہ جانے کتنے راستوں پر بھٹکے ہیں کہ آج یاد بھی نہیں
اسکول میں مار کھاتے ہوئے ، یا پیر کے انگوٹھے پکڑے ہمارے درمیاں کبھی انا۔( ego ) بیچ میں آنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوا
کہ سچ پوچھو تو انا کیا ہوتی ہے یہی معلوم نہ تھا مار کھانا یہ ہمارے روزمرہ زندگی کی عام سی بات تھی، مارنے والا اور مار کھانے والا
دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی شکایت نہ ہوا کرتی تھی۔
ہم ہمارے والدین سے کبھی زبان سے یہ کہہ ہی نہ سکے کہ ہمیں ان سے کتنی محبت ہے کیونکہ I love you یہ کہنا تب رائج
نہ تھا اور ہمیں معلوم بھی نہ تھا ، کیونکہ تب محبتیں زبان سے ادا نہیں کی جاتی تھیں بلکہ حقیقی ہوا کرتی تھیں، رشتوں میں بھی کوئی
لگی بندھی نہیں ہوا کرتی تھی بلکہ وہ خلوص اور محبت سے سرشار ہوا کرتے تھے ۔
سچائی یہی ہے کہ ہم ( ہم سے مراد ہماری عمر - یا زائد عمر کے سبھی افراد ) اپنی قسمت پر ہمیشہ راضی ہی رہے ، ہمارا زمانہ خوش بختی
کی علامت تھا ، اسکا موازنہ آج کے زندگی
سے کر ہی نہیں سکتے ۔
جانے
کہاں گئے وہ دن۔۔۔۔۔
انتخاب
@N@R
نوشاد علی ریاض احمد
N@R@
نوشاد
علی ریاض احمد
بہترین عکاسی 🎊🎊
ReplyDeleteپرانی یادیں تازہ ہو گئی.... بچپن بھی کتنا خوبصورت ہوتا ہے
ReplyDeleteBahut zabardast 👌👌
ReplyDeleteبہت خوب جناب
ReplyDelete