سبھاش چندر بوس: ہندوستان کو آزاد کروانے کی خواہش رکھنے والے رہنما جنھوں نے انگریزوں سے لڑنے کے لیے فوج تیار کی
برصغیر کو انگریزوں سے آزاد کروانے کے
لیے جتنی بھی تحریکیں اٹھیں ہیں ان میں سے ایک مؤثر تحریک ‘‘ آزاد ہند فوج ’’ یا انڈین
نیشنل آرمی بھی تھی جس کی قیادت سبھاش چندر بوس کے ہاتھ میں تھی۔یہ فوج ہندوستانی
شہریوں پر مشتمل تھی جس میں ہندو، مسلمان، سکھ سبھی شامل تھے۔اس فوج کا قیام دوسری
عالمی جنگ کے زمانے میں جرمنی، اٹلی اور جاپان کے زیر اثر برما میں ہوا اور اس نے
اتحادی طاقتوں (برطانیہ، امریکا اور فرانس) کے خلاف باضابطہ اعلانِ جنگ کیا۔ اگرچہ
ان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس سے برصغیر کی آزادی کی تحریک کو خاصی تقویت
ملی۔
سبھاش بابو
23 جنوری 1897 کو اڑیسہ کے ایک مقام کٹک میں پیدا ہوئے تھے جہاں ان کے والد رائے
بہادر جانکی ناتھ بوس وکالت کے شعبے سے وابستہ تھے۔ایک مُتمول گھرانے کے فرزند
ہونے کی وجہ سے سبھاش بابو کی تعلیم بڑے اعلیٰ پیمانے پر ہوئی تاہم کالج کے دنوں
ہی سے سبھاش بابو میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کے آثار موجود تھے۔ ایک باغیانہ
سرگرمی میں حصہ لینے کی وجہ سے سبھاش بابو کو دو سال تک پریزیڈنسی کالج کلکتہ سے
نکالا گیا۔ بعد ازاں اُنھوں نے سکاٹش چرچ کالج سے گریجویشن کی اور لندن سے انڈین
سول سروس (آئی سی ایس) کا امتحان پاس کر کے 1920 میں وطن واپس آئے۔ یہ وہ زمانہ
تھا جب ہندوستان میں ستیہ گرہ کی تحریک اپنی عروج پر تھی۔ سبھاش بابو نے آئی سی
ایس کی ملازمت ترک کی اور سی آر داس کی رہنمائی میں نیشنل کالج کے پرنسپل اور ایک
اخبار کے ایڈیٹر ہو گئے۔سسر کمار بوس کی کتاب ‘‘
نیتا جی سبھاش چندر بوس ’’ کے
مطابق ’1921 میں پرنس آف ویلز کے دورہ ہندوستان کی مخالفت اور لوگوں کو بائیکاٹ پر
اکسانے کے الزام میں انھیں پہلی مرتبہ جیل کی سزا ہوئی۔
جب 1922
میں سبھاش بابو رہا ہوئے تو انھوں نے سوراج پارٹی میں شمولیت اختیار کر کے عملی
سیاست کے میدان میں قدم رکھ دیا۔ اکتوبر 1924 سے مئی 1927 کے دوران سبھاش بابو کو
برما میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑی۔
رہائی کے بعد وہ انڈین نیشنل کانگریس سے
وابستہ ہو گئے۔ رفتہ رفتہ وہ ہندوستان کی اس سب سے بڑی سیاست جماعت کے صف اول کے
رہنماؤں میں شمار ہونے لگے۔ اگلی دہائی میں اُنھوں نے کئی مرتبہ قید کا مزا چکھا
اور ایک مرتبہ جلاوطن بھی کیے گئے۔
سنہ 1938 میں جب وہ وطن واپس لوٹے تو
انڈین نیشنل کانگریس نے انھیں اپنا صدر منتخب کر لیا۔ ان کی صدارت کا دورانیہ محض
ایک سال پر مشتمل رہا جس کے بعد انھوں نے کانگریس کے اندر رہتے ہوئے اپنے ہم خیال
افراد کا ایک فارورڈ بلاک بنا لیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب دوسری عالمی جنگ کا
آغاز ہو چکا تھا اور برطانیہ ایک ایسی جنگ میں الجھ چکا تھا جس میں شکست صاف نظر آ
رہی تھی۔
ایسے میں سبھاش بابو نے ہندوستان کی
آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کا نعرہ بلند کیا۔ ایس اے آیئر کی کتاب ‘‘ آزاد ہند فوج
کی کہانی ’’ (ترجمہ: قمر رئیس) کے مطابق ’12 جنوری 1941 کو سبھاش بابو ڈرامائی طور
پر غائب ہو گئے اور 10 ہفتے بعد سی آئی ڈی کو چکمہ دیتے ہوئے کابل کے راستے سے
برلن پہنچ گئے۔
ہندوستان سے سبھاش بابو کے فرار کی داستان بہت دلچسپ ہے جس کی تفصیلات سسر کمار بوس کی کتاب ‘‘ نیتا جی سبھاش چندر
بوس’’ میں ملتی ہے۔
ان تفصیلات کے مطابق سبھاش بابو نے پشاور
کے راستے کابل جانے کا فیصلہ کیا اور اپنے فارورڈ بلاک کے ساتھی میاں اکبر شاہ کو
اعتماد میں لیا۔سبھاش بابو اپنے پروگرام کے مطابق پشاور پہنچے اور میاں اکبر شاہ
کے گھر میں قیام پذیر ہو گئے۔ میاں اکبر شاہ نے انھیں ایک مسلمان پٹھان کا روپ دیا
اور ان کا نام محمد ضیا الدین رکھ دیا۔ 28 جنوری کو سبھاش بابو دو دن پیدل چلنے کے
بعد افغان علاقے میں داخل ہو گئے۔کچھ مزید سفر کے بعد وہ کابل پہنچ گئے جہاں انھوں
نے روسی سفیر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر یہ کوشش بے نتیجہ رہی۔ روسی سفارت خانے
سے ناکام ہونے کے بعد چھ فروری کو سبھاش بابو خود زبردستی جرمن سفارت خانے میں
داخل ہو گئے جہاں جرمن سفارت خانے میں ان کا خیر مقدم کیا گیا اور انھیں ماسکو کے
راستے ہوائی جہاز کے ذریعے برلن پہنچا دیا گیا۔
برلن میں ان کی ملاقات ہٹلر سے ہوئی
اورہٹلر ہی کی تجویز پر انھوں نے جرمنی کی سرزمین پر فری انڈیا سینٹر اور فری
انڈیا آرمی قائم کی۔
ایک برس بعد وہ آبدوز کے ذریعے تین ماہ
کا سفر کر کے جرمنی سے جاپان پہنچ گئے جہاں انھوں نے جرمنی کی مدد سے جاپان کی قید
میں موجود ہزارہا ہندوستانی فوجیوں پر مشتمل ایک فوج تیار کرنے کی منصوبہ بندی کی۔
جب 15 فروری 1942 کو جاپان نے سنگاپور پر
قبضہ کیا تو یہاں بھی 23 ہزار ہندوستانی سپاہی جاپان کے جنگی قیدی تھے۔ جاپان نے
یہ قیدی، جدوجہد آزادی کے ایک رہنما راش بہاری بوس کے حوالے کیے جنھوں نے ان سپاہیوں
پر مشتمل ایک جماعت تشکیل دی جس کا نام ‘‘ انڈین انڈیپنڈنس لیگ’’ رکھا گیا۔پھر 15 جون 1942 سے 23 جون 1942 کے
دوران بنکاک، جاوا، سماٹرا، انڈو چائنا، منچوکو، بورنیو، ہانگ کانگ، برما، ملایا
اور جاپان میں مقیم ہندوستانیوں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی۔اس کانفرنس میں انڈین
انڈیپنڈنس لیگ کا باقاعدہ افتتاح کیا گیا اور آزاد ہند فوج کے قیام کی تجویز بھی
منظور ہوئی۔چند ماہ کی تیاریوں کے بعد یکم ستمبر 1942 کو راش بہاری بوس نے آزاد
ہند فوج تشکیل دینے کا اعلان کر دیا جن میں ایک اندازے کے مطابق 50 ہزار ہندوستانی
فوجی شامل تھے۔سبھاش بابو نے جرمنی سے جاپان پہنچنے کے بعد نہ صرف آزاد ہند فوج کی
قیادت سنبھالی بلکہ وہ انڈین انڈیپنڈنس لیگ کے صدر بھی منتخب کر لیے گئے۔
پھر 25 اگست 1943 کو سبھاش بابو، جنھیں
اب نیتا جی کہا جانے لگا تھا، نے آزاد ہند فوج کے چیف کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے
کہا کہ ان کا فرض 38 کروڑ ہندوستانیوں کے ملک کو آزاد کروانا ہے اور اسے بیرونی
استبداد سے محفوظ رکھنا ہے۔سبھاش بابو کی آمد سے آزاد ہند فوج کو نہ صرف استحکام
حاصل ہو گیا بلکہ 21 اکتوبر 1943 کو انڈین انڈیپنڈنس لیگ نے باقاعدہ طور پر آزاد
حکومت ہند کے قیام کا اعلان کر دیا۔سسر کمار بوس کے مطابق ’سبھاش بابو نے آزاد
حکومت ہند کے سربراہ مملکت اور وزیرِ اعظم کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔
یہ ایسا جذباتی لمحہ تھا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر روپڑے اور آنسو ان کے گالوں پر بہنے
لگے۔
اگلے روز دنیا کے نو ممالک، جن میں جاپان،
برما اور جرمنی شامل تھے، نے اس حکومت کو تسلیم کرلیا اور اس سے اگلے روز 23
اکتوبر 1943 کو رات 12 بج کر پانچ منٹ پر اس آزاد حکومت ہند نے برطانیہ اور امریکا
کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔نیتا جی نے آزاد ہند فوج میں ہندوستان کی جانباز خواتین
پر مشتمل ایک دستہ بھی قائم کیا جس کا نام رانی جھانسی رجمنٹ رکھا گیا۔چھ نومبر
1943 کو جاپان نے انڈیمان اور نکوبار کے جزائر آزاد حکومت ہند کے حوالے کر دیے جن
کا نام بدل کر بالترتیب شہید اور سوراج دویپ رکھ دیے گئے۔ 29 دسمبر 1943 کو سبھاش
بابو نے آزاد ہند کی عبوری حکومت کی اس اولین قلمرو کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔
جنوری 1944
میں سبھاش بابو نے اپنا ہیڈ کوارٹر سنگاپور سے رنگون منتقل کر دیا جہاں سے
ہندوستان کی سرحد پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندیاں شروع کر دی گئیں اور چار فروری
1944 کو برما کی سرحد سے پہلی مرتبہ ہندوستان پر حملہ کیا گیا۔تقریباً 43 دن کی
جنگ کے بعد 18 مارچ 1944 کو ہندوستان کے صوبے آسام کے کئی مقامات پر آزاد ہند فوج
کا قبضہ ہو گیا اور 19 مارچ 1944 کو ہندوستان کی سرزمین پر پہلی مرتبہ آزاد
ہندوستان کا پرچم لہرایا گیا۔مگر بدقسمتی سے یہی وہ زمانہ تھا جب دوسری عالمی جنگ
کے دوران بحرالکاہل میں جاپانیوں کی پسپائی کا آغاز ہوا اور ان کی اس شکست نے
انھیں آزاد ہند فوج کی امداد سے ہاتھ اٹھا لینے پر مجبور کر دیا۔
چار ماہ بعد آزاد ہند فوج کو بھی پسپا
ہونا پڑا اور ان کے مفتوحہ علاقوں پر دوبارہ مقامی ہندوستانی فوج کا قبضہ ہو
گیا۔آزاد ہند فوج برصغیر کی جدوجہد آزادی کا ایک درخشاں باب ہے مگر اس باب کا
انجام بڑا المناک ہوا۔
#Subhas Chandra Bose #AreeBTLM #naushadali19881
بشکریہ : بی ۔بی۔سی۔ نیوز اردو
انتخاب:
نوشادعلی ریاض احمد۔