آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ چھٹیوں کا فائدہ اُٹھائیے۔کلک کریں اور ڈاؤنلوڈ کریں۔👇
Free Tips Here, On this page you will find educational resources easily available. Unique Teaching ideas and unique and free content for teaching / online teaching materials and many more.
BEOWDEY
انشائیہ
بیوڑے
از قلم :۔ عجیب
انصاری صاحب ۔ مالیگاؤں ( مہاراشٹر)
نہ
جانے کس نامعقول شخص نے ان کو یہ معقول سا نام دے دیا ہے ۔ورنہ گزشتہ زمانے میں مے
کش، رند، بادہ خوار، شرابی جیسے معزز القاب سے جانے جاتے تھے۔ لوگ کہتے ہیں کہ
زمانہ بدل گیا، لوگ بدل گئے، پہلے بہت معزز، امراء، شعرا، شرفا روایتی اور تہذیبی
انداز میں مے کشی کیا کرتے تھے اور سرشاری
کے عالم میں شعر بھی کہا کرتے تھے۔ جبکہ
اس دور میں شراب کو تمام تر برائیوں کی جڑ تصور کیا جانے لگا ہے۔ میں اس بات سے نہ
صرف اختلاف کرتا ہوں بلکہ اسے حقیقت سے پرے جارانہ الزام اور دروغ گوئی بھی قرار دیتا
ہوں۔ مانا کہ شراب’’ اُم الخبائث‘‘ ہے لیکن آپ دیکھیں گے کہ خبیثوں کی
اکثریت نہ صرف غیر شرابی ہے بلکہ سماج اور معاشرے میں بڑی معزز بھی بنی بیٹھی ہے۔بیوڑے
بھائیوں پر جو غیر تعلیمی اور اردو زبان و ادب سے منہ موڑنے کا الزام لگایا جاتا
ہے وہ بھی درست نہیں ہے۔ امبیڈکر پُل کے شراب خانے کی دیوار پر اردو میں لگی ہوئی بھی ہدایت جو کچھ یوں ہے۔۔۔۔
ایک
اور دو کاٹر کے چُھٹّے پیسے دیں۔
کاٹر
پینے کے بعد کاٹر لے کے جانا منع ہے۔
اندر بیٹھ کر پینے
والے چکھنا لے کر اندر نہ آئیں ۔
پارسل لے جانے والے پینے کے بعد کاٹر کی باٹلی
پھوڑ کر راستے پر نہ پھینکیں۔
ایک تاریخ سے
سنترا اور ٹینگو کا بھاؤ تیس روپیہ ہو جائے گا۔
اردو
میں لکھی یہ ہدایت چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ غالب اور میر گرچہ نہ رہے لیکن شراب
اور اردو کا تعلق ابھی بھی باقی ہے۔
باقی دنیا کی طرح بیوڑوں میں بھی آپ کو عدم مساوات واضح
نظر آئے گی محنت کش، غریب مزدور، ریٹائرڈ بوڑھے آج بھی تیس والے پووئے پر اکتفا
کرتے ہیں جبکہ نوکری پیشہ، عہدے داران، سرکاری افسران، سیاست دان پولیس آفیسر جیسے
تمام ہی حرام خور اب دیسی سے اوب کر بڑی تیزی
سے انگریزی کی طرف کوچ کرنے لگے ہیں۔
جن میں
کنگ فشر، بلیو امپیرل، بیک پائپر، بُکارڈی، رائس ٹریک آفیسرز چوائس جیسے بے شمار
ملکی و غیر ملکی برانڈ شامل ہیں
انگریزی کو دیسی پر صرف اتنی فضیلت حاصل ہے کہ جلدی
چڑھتی نہیں بشرط کہ ایک کے اوپر ایک نہ چڑھا لی جائے۔۔ اور دیسی ہے کہ چڑھ جائے تو
اترنے کا نام نہیں لیتی اور جب اترتی ہے تو ساری عزت اتار کے اترتی ہے۔۔۔
ایک
عام رجحان بن گیا ہے کہ بُرے لوگ پیتے ہیں جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے اصل میں
گنڈے مولیوں نے جب سے پینا بھی شروع کر دیا ہے تب سے بیوڑوں کی بڑی بدنامی ہو رہی
ہے۔ ورنہ دنیا جانتی ہے کہ بیوڑے بھائی دنیا کی سب سے شانتی پُروک کمیونٹی میں
شمار کیے جاتے ہیں۔ یہ سادھو اور جوگیوں کی طرح بڑے ہی رہبانیت پسند ہوتے ہیں جو
دنیا کی نظروں سے بھی دور رہنا پسند کرتے ہیں ۔ شام ہوتے ہی اپنا پارسل لے کر جس میں
ایک عدد پووا، دو سے تین لوگوں کے لیے کافی، پانی پاؤچ، پانی کا گلاس، چکنا، لیمو،
اُبلے ہوئے انڈے، بومل وغیرہ ہوتے ہیں۔
ایسی
جگہ بیٹھتے ہیں جہاں آدم زاد کی نظر ہو نہ راہ گزر اور اگر پھر بھی کوئی بھولے
بھٹکے ان کے قریب سے گزر جائے تو با آواز بلند سلام ضرور کرتے ہیں خیر خیریت
پوچھنے کے بعد دو گھونٹ مارنے کی دعوت بھی ضرور دیتے ہیں۔
عین یہی
واقعہ میرے ساتھ بھی ہوا اے ٹی ٹی اسکول کے عقب سے گزرتے ہوئے جب بیوڑوں کی ایک
جماعت نے مجھے بھی بڑی محبت اور اپنائیت
کے ساتھ ہی یوں مدعو کیا کہ لو بھیا دو
گھونٹ مارو۔
میں نے بھی کہا ا،رے نہیں چلنے دو،بسم اللہ کرو ۔پینے
سے پہلے یہ لوگ کبھی بات چیت نہیں کرتے ، ہاں مال کون بنائے گا اس بات پر کبھی بحث
و تکرار سے لے کر دستِ درازی تک کی نوبت آجاتی ہے۔ایک اچھا بیوڑہ ہونے کے لیے وقت
کی پابندی بھی نہایت ضروری ہے کیونکہ اڈا بند ہونے کے بعد بلیک میں دُگنی قیمت میں
ملتی ہے۔ دو گھونٹ کے بعد جب چکھنا بھی داخل شکم ہو تو ان کے بجھتے ہوئے وجود کو
روشنی ملتی ہے۔ رگوں میں جمتا ہوا خون پھر دوڑنے لگتا ہے ۔زبان سے روح تک پھیلی
ہوئی تشنگی کو تسکین حاصل ہوتی ہے۔ بجھتی
آنکھوں میں چمک لوٹ آتی ہے۔ پھر اس کے بعد گلی محلہ شہر گاؤں سے لے کر اقوام
عالم تک غور و فکر ، علم ادب ،سیاست ،سماجیت، فلسفہ پر جو گفتگو ہوتی ہے وہ نہ صرف
قابل سماعت بلکہ قابل دید بھی ہوتی ہے۔ مثلا کوّے کی بلند پروازپر جھومتے ہوئے ایک بیوڑے نے دوسرے سے کہا،’’ چھوٹے!
تجھے معلوم ہے صدام حسین کے پاس ایک ایسابم ہے اگر مار دے گا تو پوری دنیا تباہ ہو
جائے گی۔ اس پر دوسرے بھیڑے نے کچھ علمی اختلاف یوں کیا کہ چھوٹے تیری بات صحیح ہے۔
بم صدام حسین کے پاس ہے لیکن اس کا ریموٹ امریکہ کے پاس ہے ۔یوں دونوں میں اتفاق
ہوا ۔تیسرےبیوڑے نے کہا 1920 میں میرے دادا کے پاس اتنا پیسہ تھا کہ 100 کی نوٹ کی
بیڑی بنا کے پیتے تھے۔ ڈاکٹر لوگ بولتے ہیں کہ مال پینے سے کڈنی خراب ہو جاتی ہے
غلط بات ہے، ایک دم غلط بات۔ مال تو پیٹ میں جاتا کڈنی دماغ میں رہتی کیسے خراب ہو
گی؟ عرض کہ ان کی محفلوں میں تاریخ جغرافیہ سیاست سماجیت علم و ادب ہر موضوع پر
گفتگو ہوتی رہتی ہے جو ان کی شخصیت کے سلجھے پن اور سنجیدگی کی طرف اشارہ کرتی ہے
اور جب کوئی داؤ نہ چلا تو ان کو محض بے دین قرار دیا ،تو بھائی اصل میں دین دار ہے
بھی کون؟
مومن صاحب ،مرزا
صاحب ،مولانا صاحب ،کہ مفتی صاحب۔۔۔۔۔ ایک بار میں نے جب کسی بیوڑے بھائی سے کہا
بھائی پینا چھوڑ دو پینا حرام ہے تو اس نے اس سے کہا کھانا چھوڑ دو کھانا بھی حرام
ہے۔ پھر اس کے بعد اس نے جب تمام کھانوں کا ذکر کیا جن میں مفت خوری ،کمیشن خوری، حرام
خوری، چند ہ، ڈونیشن ،کمیشن ،تحفے ، ٹوپی بازی، دلالی ، بھڑوا گری، ضمیر فروشی جب
وہ تمام نکات کا احاطہ کر کے خاموش ہوا تو پھر سمجھو کہ ان چراغوں میں روشنی نہ
رہی ۔۔۔۔
ان کے تقوی کا ایک واقعہ یوں مشہور ہے کہ ایک
مرتبہ دو دوست تو بیٹھے پی رہے تھے جب ایک کو چڑھ گئی تو جھومتے ہوئے اس نے دوسرے
کے گلاس سے اپنا گلاس ٹکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا چیس کر چھوٹے، جس پر دوسرے نے
کہا ،نہیں بھائی چیس مت کرو چیس کرنا حرام ہے۔ان کی زندگی میں وقت کی
پابندی اور ڈسپلین بھی بلا کا ہوتا ہے یوں نہیں کہ چائے نوشوں کی طرح بس کبھی بھی
منہ اٹھائے اور چل دیے ۔دن بھر کی اپنی مصروفیات اور ذمہ داریوں سے فارغ ہونے کے
بعد شام کو آرام سے نکلتے ہیں ۔جبکہ کچھ سنیئر بیوڑوں کو صبح کے اولین ساعتوں میں بالکل ناشتے میں صبح
کی چائے کے ساتھ پینے کی طلب لگتی ہے تب اٹھتے ہی موسم پُل کی طرف چل پڑتے ہیں یہ شہر کا وہ واحد شراب خانہ
ہے جو صبح کھلتا ہے۔ یہاں دور دور سے لوگ
جیسےتیسے دن کا اجالا پورا ہونے سے پہلے ہی
پہنچ جاتے ہیں سامنے ریت کی احاطے میں
تھوڑے تھوڑے فاصلے پر اکڑوں بیٹھ جاتے ہیں
انتظار کی ان گھڑیوں میں بیڑی ان کا بڑا سہارا ہوتی ہے بیڑی پیتے جاتے ہیں کھانستے
جاتے اور بار بار ایک دوسرے سے ٹائم پوچھتے ہیں۔سات بج گیا ابھی تک
آیا نہیں سالا۔۔۔ روز کا ہے اس کا، سیٹھ کو بولنا پڑے گا۔ تب جا کر دونوں ٹائر میں
جھالر لگی سائیکل پر ان کے انتہائی بد شکل بدتمیز لیکن مساوات اور انصاف پسند ساقی
کی آمد ہوتی ہے۔ مساوات اور انسان پسند، یوں معنوںمیں کہ کسی سے بھی اگر کانچ کا
گلاس ٹوٹ جائے تو بنا ذات پات ،عمر کی تمیز کیے بغیر وہ سب کو ایک جیسی گندی گالیاں دیا کرتا تھا ۔
بات صرف اتنی نہیں تھی ساقی کے ستم اور بھی تھے یعنی اڈے پہ پہنچنے کے بعد بھی وہ
گھنٹوں سے انتظار میں بیٹھے لوگوں کی تسکین کا سامان کرنے کے بجائے اپنی صبح کی
فارملٹی پہلے پوری کرتا ۔جن میں سب سے پہلے درخت سے ٹیک لگا کر سائیکل کھڑی رکھنا،
چھت پر چھپا کر رکھے گئے جھاڑو سے پورے احاطے کی صفائی کرنا ،چند ایک کہ احاطے میں پڑی بوتلوں کو بھنگاروالے کے لیے تھیلے میں جمع کرنا، تالا کھول کر پہلے مورتی اور فریم کے پاس ماتھا ٹیکنا ، اس
کے بعد ٹیپ ریکارڈر پر سائیں بابا کی آرتی بجانا ،انتظار اور صبر کے یہ لمحات بیوڑوں
کے لیے جتنے مشکل ہوتے ہیں جس کا بیان بھی مشکل ہے ۔پھر اس کے بعد وہ باآوازِ
بلند اعلان کرتا کہ جن کے پاس چھٹے پیسے ہیں وہ پہلے آؤ۔یوں ان کے دن کا آغاز ہوتا ۔۔۔
پینے کے آداب کا ذکر تو ہم نے پہلے ہی
کر ابھی آپ نے اس کے حصول کی جدوجہد بھی دیکھی۔ اب ایک بہت اہم مرحلہ پینے کے بعد
کا بھی ہوتا ہے جس کا بھی برسوں بغور مشاہدہ کرنے کے بعد جو نتائج اخذ کیے گئے ہیں
وہ پیش خدمت ہے۔۔۔
پینے کے بعد چڑھنے
کا تعلق تو برانڈ ہوتا ہے۔ 40 والا پووا نشہ لانے میں بھی بے مثال سمجھا جاتا ہے اس کا نشہ
بھی بڑا دیسی قسم کا ہوتا ہے ۔راستوں پر ،
سڑک کے کنارے ،گٹر میں گرے پڑے سب اسی کا
شکار ہوتے ہیں جبکہ انگریزی میں نشے کی
کفیت اتنی نہیں ہوتی ہے ۔ خاص کر شراب کو
جس طرح آفاقی حیثیت حاصل ہے یعنی دنیا بھر میں پی جاتی ہے اسی طرح اس سے جُڑے
معاملات بھی وہی حیثیت کے حامل ہیں۔ مثلاً ملک
کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں پینے کے
بعد جو الفاظ بیوڑوں بھائیون کے منہ سے نکلتے ہیں وہ بھی آفاقی حیثیت کے حامل ہیں۔
مثلاً آج مزہ نہیں آیا۔ اب پہلے جیسی دارو نہیں آتی
۔۔۔صرف بھاؤ بڑھاتے جا رہے۔۔ ۔آج کی آخری
ہے کل سے پینا بند۔۔۔ اپنی محنت کے پیسے کی پیتا کس کے باپ کی نہیں پیتا۔۔۔۔۔ لگتا ہے تجھے چڑھ گئی میں تجھے گھر چھوڑنے چلوں
گا۔۔۔ اور اس ساتھی پر تو مر جانے کو ہی جی کرتا ہے جب وہ یہ کہتا ہے کہ تو یہ مت سمجھ کہ مجھے چڑھ گئی ہےتو تم ایسا
بول رہا ہوں۔۔۔ میں ایک دم ہوش میں ہوں ۔مجلس
کی برخاستگی کے بعد گھر تک کا سفر بھی کوئی آسان اور سادہ نہیں ہوتا۔۔ بیوڑوں کی
اکثریت تو فلمی گانوں کو اولیت دیتی ہے جس میں چند مخصوص گانے ،ہم نے گھر چھوڑا ہے۔۔۔۔
رہنے کو گھر نہیں سونے کو بستر نہیں ۔۔۔۔ابھی زندہ ہو تو جی لینے دو بھری برسات میں
پی لینے دو۔۔۔۔دوران سفر بھائیوں کے پسینے پسندیدہ نغمے ہیں۔
عاشقانہ مزاج بیوڑے تمھیں اپنا ساتھی بنانے سے پہلے۔۔۔۔ سے لے کر
چاندی کی دیوار نہ تھوڑی وغیرہ۔ اگر ان میں انقلابی قسم کا بیوڑا ہو تو تقریر کرتا
ہوا چلتا ہے۔ تم مجھے ووٹ دو میں تمہیں پھول دوں گا۔۔۔ انقلاب زندہ باد۔۔۔ وغیرہ۔
گھریلو حالات سے متاثر بیوڑے پورا راستہ یہی کہتے ہوئے چلتے ہیں کہ تجھے معلوم ہے
مجھے بھنڈی پسند نہیں تو، تو نے پکائی کیوں؟
اور اگر آپ انہیں نوٹس کریں تو یہ سودان کی حالت میں رک کر آپ کو کچھ یوں سلام
کرتے ہیں ۔ہیلو سر! السلام علیکم ۔۔ دیز
ایس واٹ از ۔۔۔۔ بکوز ناٹ ا ز ایبسولوٹلی رائٹ ۔۔۔۔۔سیٹ اپ ۔۔۔۔۔۔اینڈ تھینک یو ۔۔۔۔۔چلو سر چلتا ہوں۔۔۔۔
کہا جاتا ہے کہ لال کپڑوں کو دیکھ کر
سانڈ بھڑک جاتے ہیں لیکن آوارہ
سرنڈوں کو دیکھ کر بیوڑے بھڑک جاتے ہیں
اور ان کی سینگ پکڑ کر ان کو للکارتے ضرور ہیں جس کے نتیجے میں اپنے کولھوں کے دونوں پیالے اور دونوں انڈے بھی پھوٹ بیٹھتے ہیں۔
کتّا انہیں دیکھ کر بھونک دےتو سیدھا سوال
کرتے ہیں بھائی صاحب! میں نے آپ کا کیا بگاڑا ؟مجھے جانے دو ۔۔۔گٹر اور گندے نالے
تو انہیں مقناطیس کی طرح کھینچتے ہیں اور
لڑکھڑاتے ہوئے جب تک وہ اس میں گر کر لوٹ نہ لیں ،مراحل شوق ہے کہ مکمل ہی نہیں
ہوتا
ایسی بے شمار مشکلات اور مراحل سے گزر
کر یہ گھر پہنچتے ہیں آخر میں میں اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ بیوڑوں کی خدمات کا اعتراف کیا جائے اور ان کا ایک عالمی
دن مقرر کیا جائے۔۔
شکریہ!!!
#BEOWDEY #NAUSHADALI19881
SUMMER ACTIVITY SHEETS
SUMMER ACTIVITY SHEETS
ہم اپنی نسل نو کے لیے بہت سی توقعات رکھتے ہیں مگر ان توقعات پر پورا اترنے کے لیے ان کو وسائل مہیا نہیں کرتے۔۔۔ ہم اپنے طلباء سے بہت سی امیدیں رکھتے ہیں لیکن ہم انہیں وسائل نہ دیں تو وہ ہماری امیدیں پر پورا نہیں اتر سکیں گے مثلا ہم طلباء میں استعداد اور صلاحیت کو پروان چڑھنا چاہتے ہیں تو انہیں وسائل دینا بھی ان کا حق ہے۔۔۔۔
یہاں سے آپ ڈاؤن لوڈ کیجیے۔