کہکشاں ’ ملکی وے‘کا سب سے بڑا ستارہ اختتام سے قبل عکس بند۔۔۔۔۔
کیلیفورنیا: سائنسدانوں نے ہماری کہکشاں ’’ملکی وے‘‘ کے ممکنہ طور پر سب سے بڑے ستارے وی وائی کینس میجرس کی اب تک کی سب سے تفصیلی تصویر کی عکس بند کر لی ہے۔یہ ستارہ تصویر کے مطابق اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے۔
وی وائی کینس میجرس ایک سرخ ہائپر جائنٹ ہے جسے سرخ دیوبھی کہا جاتا ہے۔ یہ ستاروں کی وہ قسم ہوتی ہے جواتنے بڑے ہوتے ہیں کہ ان کا قطرز مین اور سورج کےدرمیان فاصلے سے 10 ہزار گنابڑا ہوسکتا ہے تاہم ان کے اختتامی مراحل کے متعلق سائنسداں زیادہ معلومات نہیں رکھتے۔
ستارے بھی انسانوں کی طرح پیدا ہوتے اور فنا ہوجاتے ہیں تاہم ان کی کمیت، ایندھن خرچ کرنے کے انداز اور نقلی قوت کی بنا پر بھی کوئی ستارہ سرخ دیو تک پہنچتا ہے، کوئی بلیک ہول بن جا تا ہے اور کوئی سپرنووا کی شکل میں پھٹ پڑتا ہے۔ سرخ جائنٹس کی طرح پھول کر بڑے سرخ گولے کی صورت اختیار کرنے کے بجاۓ ہائپر جائنٹس پھول کربڑے سرخ گولے کی صورت اختیار کرنے کے بجائے ہائپر جاینٹس پھول کربے ہنگم محرابوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں جو باہر خارج ہوتی رہتی ہیں۔ اس عمل سے گزرتے ہوئے بھی ستارےبھاری مقدار میں توانائی کا اخراج کرتے رہتے ہیں۔
یونیورسٹی آف ایریزونا کے محققین کی سر براہی میں کام کرنے والی ایک بین الاقوامی ٹیم نے وی وائی کینس میجرس کی خارج ہوتی محرابوں کو عکس بند کیا ہے جو کسی بھی مرتے ہوۓ ہائپر جائنٹ کی اب تک کی سب سے صاف تصویر ہے۔ان خمیدہ محرابوں کو کرنل آرکس کا نام دیا گیا ہے جو پلازما اور گیسوں پرمشتمل بڑے شعلے یا لیٹے ہوتے ہیں قلی قوت کی باعث یہ ٹوٹی ہوئی چوڑی کے ٹکڑوں کی طرح خمیدہ شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
ہماری کہکشاں میں مٹھی بھر ہائپر جائنٹس موجود ہیں اور دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ روشن ستارے اور ائن نامی ستاروں کی جھرمٹ میں موجود ہیں ۔لیکن وی وائی کینس میجرس جو زمین سے 3000 نوری سال کے فاصلہ پر موجود ہے، یہ بڑے ستاروں میں ہماری اب تک معلومات کے لحاظ سے سب سے بڑا ہے محققین کی ٹیم کی جانب سے حاصل کئے گئے نتائج کو کیلیفورنیا کے شہر پیسیڈینا میں منعقد ہونے والی240 ویں امیریکن آسٹرونومیکل سوسائٹی کی میٹنگ کے موقع پر پیش کیا گیا۔
#areebtlm #naushadali19881 #milkyway #blog #Inquilabnews
Knowledge
ReplyDeleteBest👌👌👌
ReplyDeleteاوکے
ReplyDeleteNice khalu
ReplyDeleteجزاک اللہ
ReplyDeleteVery nice thanks for the knowledge sharing
ReplyDelete