مولانا ابوالکلام آزاد :
آج 11 نومبر..... ہندوستان کے عظیم سیاسی و ملی
رہنما...بے باک صحافی و ادیب...لاجواب شاعر و نثر نگار ... بہترین عالم دین و مفسر
قرآن...رہنمائے اعظم اور عبقری شخصیت " مولانا ابولکلام آزاد " کا یوم
ولادت ہے
مولانا آزاد 11 نومبر 1888 کو مکہ مکرمہ کی مقدس سر زمین
پر پیدا ہوئے اور 69 سال کی عمر میں 22 فروری 1958 کو اس دنیا سے رخصت ہوئے-
11
نومبر مولانا کے یوم ولادت کو قومی تعلیمی دن کے طور پر بھی منایا جاتا ہے
مولانا ابوالکلام آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا
ان کے والد محترم محمد خیر الدین انہیں فیروزبخت کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ مولانا کی
والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا سلسلہ نسب شیخ جمال الدین سے ملتا ہے جو اکبر اعظم کے
عہد میں ہندوستان آئے اور یہیں کے ہو کر رہے گئے-
1857ء
کی جنگ آزادی کے دوران مولانا آزاد کے والد محترم کو ہندوستان سے ہجرت کرنا پڑی
اور وہ کئی سال عرب میں مقیم رہے۔ مولانا کا بچپن مکہ معظمہ اور مدینہ میں گزرا
ابتدائی تعلیم والد محترم سے حاصل کی۔ پھر جامعہ ازہر(مصر) چلے گئے۔ چودہ سال کی
عمر میں علوم مشرقی کا تمام نصاب مکمل کر لیا تھا۔ مولانا کی ذہانت کا اندازہ اس
بات سے ہوتا ہے کہ انہوں نے صرف پندرہ سال کی عمر میں لسان الصدق نامی ماہنامہ
جاری کیا جس کی تعریف مولانا الطاف حسین حالی نے بھی کی ہے ۔1912ء میں الہلال نامی
اخبار نکالا۔1914 میں انگریزوں نے الہلال کی ضمانت ضبط کرلی تو مولانا نے البلاغ
نامی اخبار جاری کیا-
مولانا بہ یک وقت عمدہ انشا پرداز، جادو بیان خطیب، بے
مثال و بیباک صحافی اور ایک بہترین منفرد
مفسر قرآن تھے۔ آپ آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم بنے اور تا حیات اس عہدے پر
فائز رہے-
1920
میں دہلی میں مولانا کی گاندھی جی سے پہلی ملاقات ہوئی جن کی قیادت میں تحریک عدم
تعاون میں حصہ لینے کی پاداش میں انھیں گرفتار کر لیا گیا اور دوسال قید کی سزا
ہوئی ۔ستمبر1923میں انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاس منعقدہ دہلی کے صدر منتخب ہوئے
اور پھر 1930 میں کانگریس کے قائم مقام صدر کی حیثیت سے منتخب کیے جانے کے بعد
گرفتار کرلیے گئے اور 1932 تک جیل میں ہی مقید رہے اس کے بعد 1937 میں کانگریس
پارلیمنٹری ضمنی کمیٹی کے ممبر ہوئے اور 1940 میں کانگریس کے صدر چنے جانے کے بعد
1946 تک اس عہدے پر فائز رہے۔
کانگریس پارٹی میں مولانا کا جو مقام و مرتبہ تھا وہ
اور کسی کو حاصل نہیں ہوا۔ ان کے رعب اور دبدے کا یہ عالم تھا کہ اچھے اچھوں کا
پتا ان کے آگے پانی ہوتا تھا اور ولبھ بھائی پٹیل اور گووند ولبھ پنت جیسے بڑے
کانگریسی رہنماؤں کی بولتی ان کے سامنے بند ہوجایا کرتی تھی۔
انتہا تو یہ ہے کہ جب وہ وزیر تعلیم تھے تو وزیر اعظم
نہرو تک کو ان سے ملاقات کے لئے اپائنٹمنٹ لینا پڑتا تھا.... نہرو کا کہنا تھا کہ
’’
مولانا کے علم اور مطالعے کے سامنے مجھے اپنا علم دریا کے سامنے پانی کا ایک قطرہ
دکھائی دیتا ہے‘‘
عبدالرزاق ملیح آبادی نے لکھا ہے کہ ’’ ایک دن ایسا ہوا
کہ کوئی پانچ بجے شام گاندھی جی اچانک آپہنچے، میں نے ان کا استقبال کیا اور دوڑ
کر مولانا کو اس کی خبر کی۔ انھوں نے سنا، مگر جیسے سنا ہی نہیں۔ ٹس سے مس نہ
ہوئے۔ فرمایا " ان سے کہہ دیجیے کہ
میں اس وقت ان سے ملنے سے معذور ہوں۔ کل نو بجے تشریف لائیں‘‘ عرض کیا ’’ غور
فرمالیجیے، کیا یہی پیغام پہنچادوں؟‘‘ کسی قدر تیکھے تیوروں سے فرمایا ’’ اور کیا؟
گاندھی جی میں سرخاب کے پر تو نہیں لگے ‘‘
مولانا آزاد کی ہمہ جہت طلسماتی شخصیت کا احاطہ کرنا
ناممکنات میں شامل ہے۔ وہ تحریروتقریر دونوں کے لحاظ سے اپنی مثال آپ تھے۔ حکمت و
دانائی....سیاسی تدبر....دور اندیشی...دینی و دنیاوی معاملات میں یکساں دسترس..علم
و ادب میں مہارت و کمال...زبردست قائدانہ صلاحیت.... ان تمام خوبیوں کا امتزاج
مولانا کی شخصیت خاصہ ہے جو ہمارے آج کے رہنماؤں میں خال خال نظر آتا ہے.... ان کی
یادداشت کا عالم یہ تھا کہ ہزارہا اشعار انھیں زبانی یاد تھے۔ ان کی بے مثال شخصیت
قدیم و جدید اقدار کا حسین سنگم تھی۔ بصیرت کے اعتبار سے بھی مولانا کا کوئی ہمسر
و ثانی نہیں تھا۔ اس حوالے سے ان ہی کے منہ سے نکلا ہوا یہ فقرہ دیکھیں.....
’’
تم لوگ پانی اور کیچڑ کو دیکھ کر بارش کا یقین کرتے ہو، میں اس کو ہوا میں سونگھ
کرجان لیتا ہوں۔‘‘
بلاشبہ مولانا کا شمار ان چند برگزیدہ اور عبقری ہستیوں
میں ہوتا ہے جو اپنے عہد سے کہیں زیادہ بڑی تھیں...آج ہندوستان میں مسلمانوں کی جو
تعداد ہے یہ حضرت کی ہی تگ و دو اور شاندار و معنی خیز تقاریر کا ہی نتیجہ ہے جو
آپ نے تقسیم ہند کے موقع پر جامع مسجد کے زینوں سے مسلمانوں کو پاکستان ہجرت کرنے
سے روکنے کے لئے کی تھیں....
مولانا آزاد کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کو ایسی قیادت
نصیب نہیں ہوئی جو مسلمانوں کی صحیح رہنمائی اور نمائندگی کرسکے....
اللہ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا
فرمائے....آمین...
عبقری شخصیت
ReplyDeleteGood history.. Great work sir
ReplyDeleteقابل تکریم اردو کی عظیم شخصیت جن کی عظمت تسلیم کرنا باعث فخر سمجھتا ہوں
ReplyDeleteسید اسلم صدا آمری
بے شک
Deleteعظیم الشان شخصیات
ReplyDeleteبہترین استاد محترم اور بہترین شخصیت
ReplyDelete