20اگست کو یوم عالمی مچھر کے طور پر منایا جاتا ہے۔
مچھر پر ایک بہترین اور معلوماتی مضمون حاضر ہے۔
یہاں سے آپ PDF بھی ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں۔⇩
مچھر۔۔صرف ایک مچھر
شاہ تاج خان
یہ تو آپ بھی مانتے ہوں گے کہ لاک ڈاؤن نے کئی چیزوں کی اہمیت میں اضافہ کر دیا ہے۔۔۔ سچ ہے کل تک جن چیزوں کے بارے میں ہم سوچتے بھی نہیں تھے اب اس کے بناگھر سے باہر نکلنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔۔۔ جیسے ماسک اور سینیٹائزر۔۔۔ یہی نہیں گھر کے اندر بھی ایک چیز ایسی ہے جس نے راتوں رات بنیادی ضرورت بن کر لوگوں کو حیران کر دیا ہے۔ اور وہ ہے۔۔ انٹرنیٹ ۔۔ میں بھی روز کی طرح کمپیوٹر پر یوں ہی کچھ دیکھ رہا تھا کہ اچانک مجھے ایک بات نے اپنی جانب متوجہ کیا۔۔۔ معلوم ہے وہ بات کیا تھی۔۔۔؟ کمپیوٹر اسکرین پر لکھا تھا کہ ۲۰/اگست۔۔ مچھروں سے بچاؤ کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ بھی کوئی منانے کا دن ہے۔۔؟ یہ تو پریشان ہونے کا دن ہے انھوں نے تو مجھے سب سے زیادہ پریشان کیا ہوا ہے۔ انہی مچھروں کی وجہ سے شام ہوتے ہی میری امی مجھے ریکٹ دےکر کام پر لگا دیتی ہیں کہ ایک بھی مچھر نظر نہ آنے پائے ۔۔۔! ساتھ میں کہتی ہیں کہ آج کل کوئی دوسرا کام تو ہے نہیں اس لیے مچھر ماریے۔۔! میں ہر روز گھنٹوں انھیں مارتا ہوں ۔۔ اور تھوڑی ہی دیر میں نہ جانے کہاں سے یہ پھر وارد ہوجاتے ہیں۔۔ خیر۔۔ میں نے فوراًسوچا کہ کیوں نہ آج گوگل با با پر اپنے سوالات کی بوچھار کر دوں ۔۔کیونکہ گھر کے لوگ تو اب مجھے سوالات کے موڈ میں دیکھ کر مصروفیت کے بہانے بنانے لگتے ہیں ۔ اور میرے سامنے سے غائب ہو جاتے ہیں۔۔ لیکن یہ انٹرنیٹ کہاں جائے گا۔۔۔!میں نے پہلا سوال کمپوز کیا۔۔ ہمیں مچھر کیوں کاٹتے ہیں ۔۔؟
جواب دیکھ کر تو میں حیران ہوگیا کہ۔۔۔ہمیں مادہ مچھر کاٹتی ہے۔ کیونکہ اسے اپنے انڈوں کے لیے پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے اورنر پھول وغیرہ کے رس پر پلتے ہیں ۔میں اپنے اگلے سوال کو جلدی ٹائپ کرنے لگا۔۔’’مچھر ہماری طرف متوجہ کیسے ہوتے ہیں۔۔؟“ جواب میرے سامنے تھا۔۔’’لیکٹک ایسڈ lactic acid، کاربن ڈائی آکسائڈ اور جسم سے آنے والی خوشبوا نھیں ہم پر حملہ کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔entomologist ماہر حشریات کے مطابق O بلڈ گروپ والے افراد دیگر بلڈ گروپ کےحضرات سے کئی گنا زیادہ ان مچھروں کا نشانہ بنتے ہیں۔‘‘ میں تھوڑا سوچ میں ڈوب گیا تھا لیکن میں نے اگلا سوال لکھنا شروع کیا۔
مچھروں کے کاٹنے کے بعد خارش کیوں ہوتی ہے۔۔؟“ جواب حاضر تھا۔۔’’ مادہ مچھر جسم پر بیٹھتے ہی اپناsaliva لعاب دہن جلد پر چھوڑتی ہے۔ جس سے وہ حصہ سُن ہو جاتا ہے۔۔۔ اس کے بعد پھر اپنی proboscis سونڈ کو ہماری جلد میں داخل کرتی ہے۔ جیسے ہی مچھر کی سونڈ کو خون کی رگ مل جاتی ہے تو وہ ایک بار پھر اپنا لعاب دہن چھوڑتی ہے۔ جس میں anticoagulant مانع انجماد موجود ہوتے ہیں جو خون کو پتلارکھنے میں مددگار ہوتے ہیں ۔
اس کے بعد جب ہمارے جسم کے مدافعتی نظام immune system کوئی باہری حملے کی خبر ہوتی ہے وہ حرکت میں آجاتا ہے اور ہمارے جسم سے histamine (جسمانی بافتوں میں پایا جانے والا ایک قدرتی کیمیائی مادہ ) کا اخراج عمل میں آتا ہے جو خراش کا سبب بنتا ہے اورمچھر کے کاٹنے کی جگہ تھوڑی سوج بھی جاتی ہے۔میں کافی دیر سے بنا شور شرابہ کیے خاموشی کے ساتھ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ معلوم نہیں کتنی مرتبہ امّی میری مصروفیت کا معائنہ کر کے جا چکی تھیں ۔ کیونکہ گیمس کھیلتے ہوئے میں تھوڑی تھوڑی دیر میں سب کو اپنی آوازسے چونکا تا رہتا تھا ۔۔ امی کو نہ جانے کیا شبہ ہوا کہ انھوں نے آپی کو میری خیر خبر لینےبھیج دیا۔۔”ارے نفیس ۔۔ اتنی دیر سے آپ کیا کر رہے ہیں ۔۔؟ اتنے دھیان سے کیا دیکھا جارہا ہے۔ میں بھی تو دیکھوں ۔۔۔!‘‘ آپی سیدھے کمپیوٹڑ مونیٹر کو دیکھنے لگیں ۔۔ ! انھوں نے خوش ہوتے ہوئے کہا کہ”واہ ۔۔ کیا موضوع ہے۔ پریشان تو میں بھی ہوں لیکن میں نے پہلے یہ کیوں نہیں سوچا۔۔۔؟ مچھروں نے تو حد سے زیادہ پریشان کیا ہوا ہے۔ میرا بھی ایک سوال ذرا ٹائپ تو کرنا۔ “آپی بھی میرے ساتھ ہی بیٹھ گئیں۔ہم ان ظالم مچھروں کو کیسے دور بھگا سکتے ہیں ۔۔؟ ہمیں جواب ملا۔گھر کے آس پاس گندگی نہ ہونے دیں ۔ کولر کے پانی کو وقت وقت پر تبدیل کرتے رہیں۔ کہیں بھی پانی جمع نہ ہونے دیں ۔۔ مچھروں کو مارنے والی دواؤں کا چھڑکاؤ کریں ۔۔ مچھر دانی کا استعمال کریں ۔۔‘‘ میں آگے پڑھ رہا تھا کہ آپی نے مجھے درمیان میں روکتے ہوئے کہا۔۔۔
نہیں ۔ نہیں ۔۔ یہ تو سب کو معلوم ہے۔۔ کچھ نیا۔۔ لگتا ہےکچھ دوسری طرح سے سوال پوچھنا پڑے گا۔ جیسے کوئی گھریلو نسخہ۔۔۔ کیونکہ مچھروں کو بھگانے کے لیے جلائی جانے والی کوائل وغیرہ سے تو میری حالت خراب ہوجاتی ہے۔ آپی کی بات درست تھی ۔۔ کیونکہ امی کو بھی اسپرے یا کوائل سے کھانسی آنے لگتی ہےتبھی تو وہ مجھے شام ہوتے ہی ریکٹ تھما دیتی ہیں کہ چلو ڈیوٹی پر ۔۔۔ میں نے کچھ سوچ کر ٹائپ کرنا شروع کیا۔۔۔
”ایسی قدرتی چیز یں جنہیں مچھر نا پسند کرتے ہوں ۔۔؟ سوال پڑھ کر آپی مسکرائیں کہ یہ بھی کوئی سوال ہے۔ لیکن اینٹر کرتے ہی ایک لمبی فہرست دیکھ کر ہم دونوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے ۔۔ یہ ایسی چیزیں تھیں جومچھروں کو ہم سے دور رکھ سکتی تھیں اور وہ بھی ہمیں نقصان پہنچائے بنا۔۔ آپی اور میں نے اس فہرست میں سے دو تین چیزوں کا انتخاب کرلیا۔۔ جیسے لیمن گراسlevender, lemon gras لہسن اور تلسی کا پودا۔۔“ یہ چیزیں ہمیشہ ہمارے آس پاس تھیں لیکن ہم لگا تار خطرناک چیزوں کا استعمال کرکے خود کو نقصان پہنچارہے تھے۔ آپی نے کہا ہم آج ہی ان پودوں کو اپنی گیلری میں لگا دیں گے۔ میں نے کہا کہ ہم لہسن کی کچھ کلیوں کو بھی اپنی کھڑکیوں میں رکھ دیں گے۔ لیکن آپی کو ان کی تیز خوشبو بالکل مچھروں کی طرح نا پسند تھی ۔ انھوں نے کہا کہ لیوینڈر کی خوشبو اچھی ہے ہم اس کا بھی استعمال کر سکتے ہیں ۔ ہم دونوں آرام سے باتیں کررہے تھے کہ امی بھی وہاں آ گئیں ۔۔۔ارے آپ بھی یہاں آ کر بیٹھ گئیں ۔۔؟ یہاں چل کیا رہا ہے۔۔؟ جب ہم نے انھیں مچھروں پر کی جارہی اپنی ریسرچ کے بارے میں بتایا تو ان کا بھی ایک سوال تیار تھا۔۔شام ہوتے ہی میرے سر پر کیوں ناچنے لگتے ہیں ۔۔؟ جبکہ آپ کے سر پرتو ایک دوہی مچھر منڈلاتے ہیں ۔۔؟“
امی آپ کے سوال کا جواب تو میں بھی دے سکتا ہوں ۔۔ سب سے پہلے تو یہ کہ آپ دن بھر گرمی میں کام کرتی رہتی ہیں جس سے آپ کو پسینہ آتا ہے اور آپ کے پاس سے آنے والی خوشبو مچھروں کو آپ کی جانب کھینچ لاتی ہے۔ دوسرے آپ کا بلڈ گروپ بھی تو Oہے جو مچھروں کا پسندیدہ خون ہے۔ تیسری بات آپ اکثر کالے یا گہرے رنگ کے کپڑے پہنتی ہیں ۔۔ جوان ظالم مچھروں کو بے حد پسند ہیں “
”چل شرارتی ۔۔ سچ کہہ رہا ہے یا میرا مذاق بنا رہا ہے۔۔۔؟“ آپی نے بھی جب میری بات کی تصدیق کردی تب کہیں جا کر میری معلومات پر امی کو یقین آیا۔۔ امی خوش ہوکر ہمیشہ کی طرح دعائیں دینے لگیں۔۔شام ہونے لگی تو امی نے کہا۔کھڑکی دروازے بند کریے ورنہ ظالم مچھروں کی فوج گھر میں داخل ہو کر میرا خون چوسے گی۔
’’امی ۔ ۔ آپ صرف شام کو ہی مچھروں کی خبر لیتی ہیں جبکہ کئی مچھر تو دن میں بھی کاٹتے ہیں۔ میری بات کے جواب میں امی نے کہا۔
مجھے تو لگتا تھا کہ مچھرصرف رات میں ہی کا تے ہیں ۔۔!‘‘امی آگے بھی بول رہی تھیں’’ یہ اتنے چھوٹے سے دِ کھنے والے مچھر بیماریاں بھی تو اتنی بڑی بڑی ہوجاتی ہیں کہ مجھے ڈر لگتا ہے۔ کچھ دن پہلے پڑوس کی بچی کو ملیریا نے کتنا پریشان کیا تھا۔۔ پھر وہ ڈینگی۔۔ سوائن فلو اور بھی نہ جانے کون کون سی بیماریاں یہ چھوٹا سا کیڑا پھیلاتا رہتا ہے۔۔‘‘امی۔۔ آس پاس بیمار ہورہےلوگوں کی وجہ سے زیادہ فکر مند ہورہی تھیں۔۔
امی ۔۔ آپ پریشان نہ ہوں آج ہم ان کا مستقل علاج کردیں گے۔۔ اب یہ مچھر گھر میں داخل ہو کر ہمیں تنگ نہیں کر پائیں گے۔۔ امی کو میری بات پر کچھ کچھ یقین آیا۔ وہ کہنے لگیں۔ آپ دونوں کی باتیں سن کر مجھے بھی لگ رہا ہے کہ شاید ممکن ہو۔۔۔‘ ابھی امی کو ہماری باتوں پر پورا یقین نہیں تھا۔ آپی نے مجھ سے کہا کہ میں کھڑکیاں بند کرتی ہوں اور آپ جلدی سے نکڑکے پودے والے انکل کی دکان سے لیمن گراس اور تلسی کا پودا خرید لائیے۔ ہم ان مچھروں کا آج ایسا علاج کریں گے کہ یہ ہمارے گھر کا رخ بھی نہیں کریں گئے۔۔‘‘امی نے حیران ہوکر پوچھا۔۔
کیا۔۔؟؟ صرف پودوں سے انھیں دور رکھا جا سکتا ہے۔۔؟“ ہم دونوں نے ایک ساتھ کہا۔۔
جی ہاں ۔۔ مچھروں کو خوشبو بالکل پسندنہیں ہوتی۔ ہمیں آج ہی گوگل بابا نے بتایا ہے۔۔۔“ امی حیران۔۔۔
ارے یہ گوگل بابا کون ہیں ۔۔؟
میں پہلے پودے لے آوں پھر آپ کی ملاقات گوگل بابا سے کراتا ہوں ۔۔۔!
588/2B, Hayat Manzil
Plot No. 40, Flat No. 4, NewEra Society, Pune-411037 Maharashtra shahtaj786@gmail.com Mob: 09225545354
بہت ہی دلچسپ اور معلوماتی مضمون.
ReplyDeletePlease... Send small English sentences
ReplyDeleteGreat work
ReplyDeleteGood one
ReplyDeleteشکریہ
Deleteآپکا بہت شکریہ سر آج معلوم ہوں ۔۔ مچّھر کے بار ے میں
ReplyDelete